بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جو مسجد بینک ملازم نے تعمیر کروائی ہو، اس میں نماز پڑھنا


سوال

ہمارے گاؤں مری میں پنجاب  بینک  کے ایک ملازم نے اپنے پاس سے سارا پیسہ  لگا کر ایک مسجد بنوائی ہے، اور جو رقم مسجد پر لگائی ہے، وہ ساری بینک کی کمائی کی ہے۔

کیا مذکورہ مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ بینک ملازم نے  بینک کی تنخواہ  سے ہی مذکورہ مسجد بنائی ہو، تو ایسی صورت میں وہاں نماز ادا کرنا مکروہ ہوگا،تاہم مذکورہ شخص اگر اتنی حلال رقم  غرباء اور فقراء میں صدقہ کردے جتنی حرام رقم مسجد کی تعمیر میں لگی ہے تو اس کے بعد اس میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں  ہوگا، نیز اسی طرح اگر مذکورہ  شخص نے بینک کی تنخواہ کے بجائے، کسی حلال ذریعہ سے حاصل ہونے والی رقم سے مسجد تعمیر کروائی ہو، تو ایسی مسجد میں نماز ادا کرنے میں کوئی کراہت  نہ ہوگی۔

کفایت المفتی میں ہے:

"(جواب:٤٩) جس شخص کی تمام کمائی حرام کی ہو اور وہ اس حرام مال سے مسجد بنائے تو وہ مسجد صحیح مسجد نہیں ہوتی۔ نماز اس میں بھی ہو جاتی ہے، مگر مسجد کا ثواب نہیں ملتا۔ اور جس شخص کی کمائی حلال بھی ہو اور حرام بھی اور وہ مخلوط کمائی سے مسجد بنائے تو اگرچہ حرام مال خرچ کرنے کا اسے کچھ ثواب نہیں ملے گا لیکن احکام اور فتوی کی رو سے یہ مسجد؛ مسجد ہو جائے گی۔ اور وقف صحیح ہونے کا حکم دیا جائے گا اور مسلمانوں کو حق ہوگا کہ وہ اس کو بحیثیت مسجد کے استعمال کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ "

(کتاب الوقف، فصل دهم: مسجد میں ناجائز رقم لگانا، بعنوان: خالص حرام یا حلال و حرام مخلوط آمدنی سے بنی مسجد میں نماز پڑھنا، ٧ / ٦٨ - ٦٩، ط: دار الاشاعت) 

وفیہ ایضا:

"(سوال) جو مسجد ناجائز کمائی سے موقوفہ یا غیر زمین پر بنائی جائے، اس میں نماز ہوسکتی ہے یا نہیں؟

(جواب: ٢٨) جو مسجد حرام مال سے بنی ہو، یا غضب کی زمین پر، اس میں نماز مکروہ ہے۔"

(کتاب الوقف، فصل پنجم: زمین غیر موقوفہ پر مسجد بنانا، بعنوان: حرام مال سے یا مغصوبہ زمین پر بنائی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنامکروہ ہے،٧ / ٥١ - ٥٢، ط: دار الاشاعت)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله. اهـ. شرنبلالية."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،  ١ / ٦٥٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں