بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جو کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قدرت نہ رکھتا ہو اُس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

 جس مریض کو نماز میں بار بار اٹھنے بیٹھنے سے تکلیف ہوتی ہو یا سجدہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہو تو کیا وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتاہے؟ نیز اگر بیٹھ کر نمازپڑھ سکتا ہے تو زمین پر بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے یا کرسی پر ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا ناقابلِ برداشت درد ہوتا ہو، تو ان صورتوں میں وہ زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

نیز اگر مذکورہ شخص زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے رکوع سجدہ کرنے پر قادر ہو تو اُس کے لیے کرسی  کے بجائے زمین پر بیٹھ کر ہی اشارہ سے رکوع وسجدہ کرنا افضل ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما إذا كان عاجزا عنه: فإن كان عجزه عنه بسبب المرض بأن كان مريضا لا يقدر على القيام والركوع والسجود يسقط عنه؛ لأن العاجز عن الفعل لا يكلف به، وكذا إذا خاف زيادة العلة من ذلك؛ لأنه يتضرر به وفيه أيضا حرج، فإذا عجز عن القيام يصلي قاعدا بركوع وسجود، فإن عجز عن الركوع والسجود يصلي قاعدا بالإيماء، ويجعل السجود أخفض من الركوع، فإن عجز عن القعود يستلقي ويومئ إيماء؛ لأن السقوط لمكان العذر فيتقدر بقدر العذر."

(كتاب الصلاة، فصل أركان الصلاة، 105،106/1، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ذا عجز المريض عن القيام صلى قاعدا يركع ويسجد، هكذا في الهداية وأصح الأقاويل في تفسير العجز أن يلحقه بالقيام ضرر وعليه الفتوى، كذا في معراج الدراية، وكذلك إذا خاف زيادة المرض أو إبطاء البرء بالقيام أو دوران الرأس، كذا في التبيين أو يجد وجعا لذلك فإن لحقه نوع مشقة لم يجز ترك ذلك القيام، كذا في الكافي...... ثم إذا صلى المريض قاعدا كيف يقعد الأصح أن يقعد كيف يتيسر عليه، هكذا في السراج الوهاج، وهو الصحيح، هكذا في العيني شرح الهداية.

وإذا لم يقدر على القعود مستويا وقدر متكئا أو مستندا إلى حائط أو إنسان يجب أن يصلي متكئا أو مستندا، كذا في الذخيرة ولا يجوز له أن يصلي مضطجعا على المختار، كذا في التبيين.

وإن عجز عن القيام والركوع والسجود وقدر على القعود يصلي قاعدا بإيماء ويجعل السجود أخفض من الركوع، كذا في فتاوى قاضي خان حتى لو سوى لم يصح، كذا في البحر الرائق.

وكذا لو عجز عن الركوع والسجود وقدر على القيام فالمستحب أن يصلي قاعدا بإيماء وإن صلى قائما بإيماء جاز عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، 136/1، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما لقربه من الأرض (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوما."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المريض، 97،98/2، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں