بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جو حصہ شرعی مسجد کی حدود سے باہر ہو اس میں اعتکاف کرنا


سوال

ایک مسجد کا وضو خانہ تہہ خانے میں ہے اور وضو خانے کی چھت، مسجد کا صحن، برآمدہ اور ہال ایک سطح پر بنے ہوئے  ہیں، گرمی کے موسم میں مسجد کے صحن کا وہ حصہ جو وضوخانے کی چھت ہے پر لوگ نماز پڑھتے  ہیں اور اعتکاف کرتے ہیں، پوچھنا یہ ہے وضوخانے کی چھت پر اعتکاف بیٹھنا درست ہے یا نہیں حالانکہ یہ حصہ شرعی مسجد کی حدود سے باہر ہے اور اس جگہ نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنا کہلائے گا یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں وضو خانے کی چھت کا وہ حصہ جوکہ مسجد کے صحن سے متصل ہے چونکہ شرعی مسجد کی حدود سے باہر ہےاس لیے وہاں اعتکاف کرنا جائز نہیں ہے، اس جگہ اعتکاف کرنے سے اعتکاف کی سنت ادا نہیں ہوگی، نیز مسجد شرعی کی حدود (مسجد کا ہال، برآمدہ، صحن ) میں اعتکاف شروع کرنے کے بعد  اگر کوئی معتکف کسی شرعی یا طبعی عذر کے بغیر مذکورہ وضو خانے کی چھت والے حصے میں جائے گا تو اس کا اعتکاف فاسد  ہوجائے گا، لہذا مسجد انتظامیہ کو چاہیے کہ اعتکاف شروع ہونے سے پہلے  اعتکاف کرنے والوں کوشرعی مسجد کی حدود واضح طور پر سمجھادے۔ 

نیز مذکورہ وضوخانے کی چھت پر نماز پڑھنے کا اگر یہ مطلب ہو کہ گرمی کے موسم میں جماعت ہی اس حصے میں ہوتی ہے اور شرعی مسجد کی حدود میں نہیں ہوتی تو ایسا کرنامسجد کو چھوڑنے کی وجہ سے  درست نہیں ہوگا اور اگر یہ مطلب ہوکہ  جماعت تو مسجد کی حدود میں ہوتی ہے لیکن ازدحام کی وجہ سے آخر میں کچھ لوگوں کو جگہ وضوخانے کی چھت والے حصے میں ملتی ہے یا یہ کہ جماعت سے فارغ ہونے کے بعد لوگ سنن و نوافل اس جگہ ادا کرتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہوگا لیکن سنن و نوافل کے لیے معتکف کا اس جگہ جانا جائز نہیں ہوگا۔ 

 الفتاوى الهندية  (1/ 212):

"(وأما مفسداته) فمنها الخروج من المسجد فلا يخرج المعتكف من معتكفه ليلا ونهارا إلا بعذر، وإن خرج من غير عذر ساعة فسد اعتكافه في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في المحيط. سواء كان الخروج عامدا أو ناسيا هكذا في فتاوى قاضي خان ۔۔۔  ومن الأعذار الخروج للغائط والبول، وأداء الجمعة."

(كتاب الصوم، الباب السابع في الاعتكاف، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں