بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جو کمپنی سودی قرض لے کر مال خریدتی ہو اس سے سامان خریدنے کا حکم


سوال

کمپنی بینک سے قرضہ لیتی ہے اور اس قرضہ سے ہمیں مال بھجواتی ہے، مثال کے طور پر کمپنی نے بینک سے دس لاکھ لیے اور اسی دس لاکھ کا مال ہمیں بھیج دیا، اب کمپنی اسی دس لاکھ پر ہم سےچارجز وصول کررہی ہے، کیا یہ چارجز سود کے زمرے میں تو نہیں آتے؟

جواب

ہماری سمجھ کے مطابق سائل ایک ایسی کمپنی سےخریداری کے معاملات کرتے ہیں،جو بینک سے قرض لےکرمال خریدتی ہےاوردوسروں کو کچھ نفع کے ساتھ فروخت کرتی ہے،اگربات ایسی ہی ہےتواس کا حکم یہ ہے کہ سائل کااس کمپنی سے مال خریدناجائز ہےاورسامان بیچنے پرکمپنی جونفع وصول کرتی ہے،وہ ادا کرناسود کے زمرے میں نہیں آئےگا۔

اگر صورت ایسی نہیں ہے،تو درست صورت لکھ کر پھر معلوم کیجیے  ۔

قرآن کریم  میں ہے:

" وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ."

ترجمہ:’’اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر، اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر۔۔۔‘‘

(سورةالمائدة،الآية:٢)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(وأما) عند اختلاف الجنس فلا بأس بالمرابحة حتى لو اشترى دينارا بعشرة دراهم فباعه بربح درهم أو ثوب بعينه جاز؛ لأن المرابحة بيع بالثمن الأول وزيادة، ولو باع دينارا بأحد عشر درهما أو بعشرة دراهم وثوب كان جائزا كذا هذا."

(ص:٢٢١،ج:٥،کتاب البیوع،فصل فی المرابحة وتفسيرها وشرائطها،ط:دار الكتب العلمية)

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"وعن أبي الأشعث الصنعاني قال: خطبنا عبادة بن الصامت رضي الله عنه بالشام فقال: أيها الناس إنكم أحدثتم بيوعا لا يدرى ما هي، ألا وإن الذهب بالذهب، وزنا بوزن تبره وعينه، ألا وإن الفضة بالفضة تبرها وعينها سواء، ولا بأس ببيع الذهب بالفضة يدا بيد، والفضة أكثر، ولا يصلح نسيئة، ألا وإن الحنطة بالحنطة مدين بمدين، ألا وإن الشعير بالشعير مدين بمدين، ولا بأس ببيع الشعير بالحنطة يدا بيد، والشعير أكثرهما، ولا يصلح نسيئة، ثم ذكر في التمر والملح مثل ذلك ... وفيه دليل أنه كما يحرم ‌أخذ ‌الربا يحرم إعطاؤه فالمستزيد آخذ، والزائد معطي، وقد سوى بينهما في الوعيد."

(ص:١٠،ج:١٤،کتاب الصرف،ط:دار المعرفة،بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں