میری بیوی جھگڑا کرتے ہوئےمجھے بد دعا دیتی ہے، کیا اس کی بد دعا قبول ہوسکتی ہے؟ اور ایسی بیوی کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ بددعا دینا جائز نہیں، عام حالات میں بد دعا کے کلمات کہنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے، تاہم حدیث کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مظلوم کی بددعا ظالم کے حق میں فوری قبول ہوتی ہے، لہذا مظلوم کی بد دعا سے بچنا چاہیے، لہذا اگر کسی نے زیادتی نہیں کی تو اللہ تعالی اس کے خلاف بددعا نہیں سنے گا، اس کے باوجود بد دعائیہ کلمات نہیں کہنے چاہئیں۔
لہذا سائل کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو سمجھائے، اور اس کے حقوق میں جہاں کمی کوتاہی ہو رہی ہو اسے دور کر نے کی کوشش کرے، اوراس کی اصلاح کی فکر کرے ، تاکہ وہ اچھے اخلاق اپنائے اور اس کے رویہ میں بہتری آئے، باقی اگر سائل کی طرف سے ظلم نہیں ہوا تو سائل کے خلاف بد دعا اثر نہیں کرے گی ۔
تفسیر مظہری میں ہے:
"﴿لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ﴾ يعني يبغض الجهر بالسوء وغير الجهر أيضاً، لكن الجهر أفحش، وإنما خصّ الجهر بالذكر؛ لمطابقة الحادثة ﴿إِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾ إلّا جهر من ظلم بالدعاء على الظالم والتظلم منه، وقيل: الجهر بالسوء من القول، هو الشتم إلّا من ظلم؛ فانه إن ردّ عليه مثله فلا حرج."
(النساء، آیت:148، ج: 2 ق 2، ص:266، ط:مكتبة الرشدية)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تدعوا على أنفسكم ولا تدعوا على أولادكم لا توافقوا من الله ساعة يسأل فيها عطاء فيستجيب لكم» . رواه مسلم."
(کتاب الدعوات، الفصل الاول، ج:2، ص:692، ط:المكتب الإسلامي)
صحيح بخاری میں ہے :
"عن ابن عباس رضي الله عنهما: أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن، فقال: (اتق دعوة المظلوم، فإنها ليس بينها وبين الله حجاب)."
(كتاب المظالم، باب: الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم، ج:2، ص:864، ط:دار ابن كثير)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101518
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن