بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جاندار کی تصویر کی حرمت میں ذی روح عاقل اور غیر عاقل میں برابر ہیں


سوال

جیسا کہ احادیث میں جاندار کی تصویر بنانے کی ممانعت آئی ہے تو میں نے پوچھنا یہ تھا کہ کیا جاندار میں صرف انسان آتے ہیں یا جانور بھی،  یعنی کیا جانوروں کی تصویر بنانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

جاندار ذی روح اور  سانس لینے والے  کو کہتے  ہیں، اسی بنیاد  پر جاندار کی تصویر سازی کی ممانعت میں انسان ، جانور، چرند پرند سب شامل ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن سعيد بن أبي الحسن ، قال:‏‏‏‏ جاء رجل إلى ابن عباس ، فقال:‏‏‏‏ إني رجل أصور هذه الصور فأفتني فيها؟ فقال له:‏‏‏‏ ادن مني، فدنا منه، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ ادن مني، فدنا حتى وضع يده على رأسه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ أنبئك بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ " كل مصور في النار يجعل له بكل صورة صورها نفساً فتعذبه في جهنم"، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ إن كنت لا بدّ فاعلاً فاصنع الشجر، ‏‏‏‏‏‏وما لا نفس له".

(صحيح مسلم،كتاب اللباس والزينة،باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة،  ج:3، ص: 1670، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: "سعید بن ابی الحسن سے روایت ہے، ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں یہ تصویریں  بناتا ہوں، اس بارے میں مجھے فتویٰ دیجیے!  سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میرے قریب ہو، وہ ہوگیا، پھر انہوں نے فرمایا: قریب ہوجاؤ، چناں چہ وہ اور نزدیک ہوگیا، یہاں تک کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا اور فرمایا: میں تجھ سے کہتا ہوں وہ جو میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہر ایک تصویر بنانے والا جہنم میں جائے گا اور ہر ایک تصویر کے بدل ميں ایک جان داربنایا جائے گا جو تکلیف دے گا اس کو جہنم میں۔“ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر تو نے بنانا ہی ہے تو درخت کی یا کسی اور بےجان چیز کی تصویر بنا۔"

دوسری حدیث شریف میں ہے:

"عن النضر بن أنس بن مالك، قال:‏‏‏‏ كنت جالساً عند ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏فجعل يفتي، ‏‏‏‏‏‏لايقول:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى سأله رجل، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ إني رجل أصور هذه الصور، ‏‏‏‏‏‏فقال له ابن عباس:‏‏‏‏ ادنه فدنا الرجل، ‏‏‏‏‏‏فقال ابن عباس : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول: "من صور صورة في الدنيا كلف أن ينفخ فيها الروح يوم القيامة، ‏‏‏‏‏‏وليس بنافخ ".

(صحيح مسلم،كتاب اللباس والزينة،باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، ج:3، ص:1671، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:" سیدنا نضر بن انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ فتویٰ دیتے تھے اور حدیث نہیں بیان کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے پوچھا: میں مصور ہوں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے پاس آ، وہ پاس آیا ،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص دنیا میں تصویر بنائے اس کو قیامت کے دن اس تصویر میں روح (جان) ڈالنے کا مکلّف بنایا جائے گا لیکن وہ جان نہ ڈال سکے گا۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا،انتهى،وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان،وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ". 

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص: 647، ط: سعيد)

فیہ ایضاً:

"(قوله أو لغير ذي روح) لقول ابن عباس للسائل " فإن كنت لا بد فاعلا فاصنع الشجر وما لا نفس له " رواه الشيخان، ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافا لمجاهد بحر (قوله لأنها لا تعبد) أي هذه المذكورات وحينئذ فلا يحصل التشبه.
فإن قيل عبد الشمس والقمر والكواكب والشجرة الخضراء. قلنا عبد عينه لا تمثاله، فعلى هذا ينبغي أن يكره استقبال عين هذه الأشياء معراج: أي لأنها عين ما عبد، بخلاف ما لو صورها واستقبل صورتها."

(‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 649، ط: سعيد)

شرح الکبیر میں ہے:

"والحاصل أنه يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء إذا كان يدوم إجماعا وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ ويحرم النظر إليه إذ النظر إلى المحرم حرام."

(باب النکاح ، ج:2، ص:388، ط:دارالفکر)

بلوغ القصدوالمرام میں ہے:

"يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام".

(جواہر الفقہ، تصویر کے شرعی احکام: ج:7، ص:264-265، از: بلوغ  القصد والمرام، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں