بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازے کو مسجد کے صحن سے گزارنے کا حکم


سوال

ہماری مسجد کی ایک طرف جنازہ کی جگہ مخصوص ہے، لیکن جنازہ مسجد کے صحن سے گزارنا پڑتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جنازہ کی نماز کے لیے جس طرح مسجد سے باہر جگہ کا انتظام کرنا چاہیےاسی طرح جنازے کو جنازہ گاہ لے جانےاور باہر لانے کے لیے راستہ بھی مسجد اور صحنِ مسجد کے بجائے الگ سے ہونا چاہیے، مسجد یا صحنِ مسجد سے جنازہ لے جانے کی صورت میں ایک تو تلویث مسجد  کا اندیشہ رہتا ہے، دوم مسجد یا صحن مسجد کو گزرگاہ بنانا لازم آتا ہے جب کہ مسجد جائے عبادات ذکر واذکارہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"(قوله ولا يصلى على ميت في مسجد جماعة) في الخلاصة مكروه وسواء كان الميت والقوم في المسجد، أو كان الميت خارج المسجد والقوم في المسجد، أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقون في المسجد، أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد. هذا في الفتاوى الصغرى. قال: هو المختار خلافا لما أورده النسفي - رحمه الله - اهـ.

وهذا الإطلاق في الكراهة بناء على أن المسجد إنما بني للصلاة المكتوبة وتوابعها من النوافل والذكر وتدريس العلم.وقيل لا يكره إذا كان الميت خارج المسجد، وهو بناء على أن الكراهة لاحتمال تلويث المسجد".

(کتاب الصلوۃ، الصلوہ علی المیت، ج:2، ص:128، ط:دارالکفر)

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(كما جاز جعل) الإمام (الطريق مسجدا لا عكسه)

(قوله: لا عكسه) يعني لا يجوز أن يتخذ المسجد طريقا وفيه نوع مدافعة لما تقدم إلا بالنظر للبعض والكل شرنبلالية."

(کتاب الوقف، مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته، ج:4، ص:376، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں