بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازے کی نماز میں امام کو ولی پر حق حاصل ہونے میں کونسا امام مراد ہے؟


سوال

 جدیدامداد الفتاوی مع جدیدمطول حاشیۃ (حضرت مولانا شبیراحمد قاسمی صاحب) مبوب ج:3 ص:316 (مطبوعہ دارالاشاعت اردوبازار کراچی)میں ایک سوال نمبر292) درج ذیل ہے:

"بادشاہ یا قاضی یاامام حی کے حاضرہونے کے ساتھ ولی میت یاوصی میت کے واسطے نماز پڑھانا جائز ہے یانہیں ،مگراتفاق سےپڑھادے تونمازدہرانا ہوگا یا نہیں؟

الجواب: وصی میت کا تو اسمیں کوئی حق نہیں ،البتہ ولی صاحب حق ہے مگرسلطان وقاضی وامام حی اس سے مقدم ہے۔

اس میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نےامام حی اور محلہ کی مسجد کےامام کو ولی پرمقدم قراردیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے کہ محلہ کاوہ امام جوحاکم وقت کی طر ف سے مقررکردہ ہے،اس کو محلہ کےلوگوں پرحاکم اور قاضی کی طرح ایک قسم کی ولایت حاصل ہوئی ہے،وہ نماز جنازہ پڑھانے میں ولی پرمقدم ہوتا ہے،حضرت والا تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے جواب میں یہی امام مراد ہے،جوحاکم یاقاضی کی طرف سے مقررکردہ ہے،اس کے برخلاف محلہ کی مسجد کا وہ امام جس کومحلہ والوں اور مقتدیوں نے یا مسجد کے متولی یاکمیٹی نے مقرر کیا ہے،اس کا حکم محلہ کے افراداور مقتدیوں میں سے ایک فرد کی طرح ہے کیونکہ محلہ والےیا مسجد کے ذمہ دار ان جب چاہیں گے اس امام کو منصب امام سے برطرف کر سکتےہیں؛لہذامحلہ والے اور مسجد کے ذمہ دار کو اس امام پر بالادستی حاصل ہے، وہ نماز جنازہ میں ولی پر فائق اورمقدم نہیں ہوگا ؛لہذا ولی کی اجازت کے بغیر اس کونماز جنازہ پڑھانے کا حق نہیں ہوگا،اس بارے میں فقہی جزئیات ملاحظہ فرمائیں:

اسکو البحر الرائق میں ان الفاظ سے نقل فرمایا ہے: 

" وھذا خاص بامام مسجد محلتہ والذی ظھر لی انہ ان کان مقرر من جھۃ القاضی فھو کنائبہ وان کان المقرر لہ الناظر فھو کالاجنبی الخ۔

(البحر الرائق،جدید زکریا دیوبند2/316)

وکذا حاشیۃ قاسمی صاحب علی الفتاوی التاتارخانیہ ۔الفصل 32۔من ھواولی بالصلوۃ علی المیت( جلد3) مکتبۃ زکریا دیو بندی

اب بندہ عرض کرتا ہے کہ حضرت مولانا شبیراحمد قاسمی صاحب نےجو حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے عبارت سے تخریج کی ہےاور اس پر جو جزئیہ نقل کیا ہے ،بحرالرائق میں پوری جزئیہ اس طرح ہیں کہ:

"قدوقع الاشتباہ فی امام المصلی المبنیۃ لصلوۃ الاموات فی الامصارفان البانی یشرط لھااماماخاصا ویجعلہ معلومامن وقفہ فھل ھومقدم علی الولی الحاقالہ بامام الحی اولا،مع القطع بانہ لیس بامام الحی لتعلیلھم ایاہ بٵن المیت رضی بالصلوۃخلفہ حال حیاتہ وھذا خاص بامام مسجد محلتہ،والذې ظھر لی ٵنہ ٳن کان مقررا من جھۃ القاضی فھوکنائبہ وٳن کان المقررلہ الناظرفھو کالاجنبی الخ۔(البحر الرائق،جدید زکریا دیوبند2/316)

حضرت قاسمی صاحب نے اس پورے جزئیہ میں سے صرف " وھذا خاص بامام مسجد محلتہ۔۔۔۔۔الخ تک نقل کیا ہے۔

لہٰذا آپ حضرات سےدرخواست ہے،کہ اس عبارت میں بندہ کی رہنمائی فرمائیں کہ اگر خاص جزئیہ جو مولانا قاسمی صاحب نے حضرت تھانوی صاحب ؒ کی عبارت کی وضاحت میں نقل فرماکر جس مسئلہ کی تخریج کی ہے اس کے مطابق امام حی یا محلہ کے امام کو ولی کی اجازت ضروری ہوگی ورنہ امام حی یا محلہ کے امام کو نماز جنازہ پڑھانے کا حق نہ ہوگا ،جبکہ بندہ کے ناقص فہم کے مطابق یہ خاص جزئیہ حضرت مولانا قاسمی صاحب کے عبارت مذکورپرمنطبق نہیں آرہا، کیونکہ یہ عبارت امام حی اورمحلہ کی مسجد کے امام کے متعلق نہیں ہے، جیساامام شامیؒ نے ردالمحتار میں بحر الرائق کی عبارت (جو بندہ نے اوپر نقل کی ہے) کونقل کرنے کےبعد فرمایا،اقول: ھذاٵولی لما یٵتی من ٵن الٵصل ٵن الحق للولی، و ٳنما قدم علیہ الولاۃ وامام الحی لمامرمن التعلیل وھو غیر موجود ھناالخ

لہذ ا مولانا قاسمی صاحب کی تخریج اس خاص جزئیہ کےموافق ہیں یا نہیں؟  جو مولانانے ذکر فرمایا ؟ دونوں صورتوں میں مسئلے کی شرعی وضاحت مدلل بیان فرمائیں ؟ 

جواب

امداد الفتاویٰ کے جواب کے مطابق بادشاہ یا قاضی یا اس کا نائب حاضر ہونے کے وقت میت پر نمازہ جنازہ پڑھانے کا حق ولی کے بنسبت انہیں لوگوں کا ہے، اگر بادشاہ یا قاضی یا ان کی طرف سے مقرر شدہ نائب نہیں ہے، تو استحباباً محلّے کےامام کو ولی پر مقدم کرنا چاہیے، اگر ولی محلّے کے امام سے افضل ہے تو ولی کو مقدم کرنا چاہیے، لہذا یہ مسئلہ درست ہے اگر بادشاہِ وقت کی طرف سے مسجد کا امام مقرر ہے تو ولی پر اس کا حق وجوباً مقدم ہے کیوں کہ یہ بادشاہ کا نائب ہے، اورجس طرح بادشاہ کی موجودگی میں ان کی تعظیم کی وجہ سے ولی پر اس کا حق مقدم ہے اسی طرح نائب کی موجودگی میں بھی نائب کا حق مقدم ہے، اوراگر وہ امام بادشاہ وقت کی طرف سے مقرر نہیں ہے تو مسجد کے امام کا حق استحباباً مقدم ہےکیوں اس میں وہ علت نہیں پائی جارہی جو بادشاہ کے نائب میں پائی جارہی تھی اور استحباباً اس وجہ سے مقدم ہے کہ میّت زندگی میں نماز پڑھانے پر اس پر راضی تھا تو مرنے کے بعد اسی کو پڑھانا چاہیے، اگر اس کی موجودگی میں ولی نماز پڑھائے تو درست ہے، اسی طرح اگر ولی اس محلہ کے امام سے افضل ہے تو ولی ہی کو نماز پڑھانا چاہیے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

 "السلطان أحق بصلاته الواجب تعظيمه "ثم نائبه" لأنه السنة "ثم القاضي" لولايته ثم صاحب الشرط ثم خليفة الوالي ثم خليفة القاضي "ثم إمام الحي" لأنه رضيه في حياته فهو أولى من الولي في الصحيح "ثم الولي

قوله: "السلطان أحق بصلاته" المراد بالسلطان الخليفة قوله: "لواجب تعظيمه" أي لتعظيمه الواجب لأن في تقديم غيره عليه إهانته قوله: "ثم نائبه" أي نائب الخليفة في أحكام السياسة وهو أمير البلدة كما في الدرر ويجب تقديمه ولا ينافيه قوله لأنه السنة لأن المراد بها في كلامه الطريقة المعهودة في الدين قوله: "لأنه السنة" أي لأن تقديم النائب هو السنة أي علم منها فقد قدم الحسين سعيد بن العاص ليصلي على جنازة أخيه الحسن وكان سعيد حينئذ واليا على المدينة فقال له الحسين: تقدم ولولا السنة ما قدمتك أفاده في الشرح...

قوله: "ثم إمام الحي" المراد به إمام مسجد محلته لكن بشرط أن يكون أفضل من الولي وإلا فالولي أولى منه كما في النهر وفي الشرح والصلاة في الأصل حق الأولياء لقربهم إلا أن الإمام والسلطان يقدمان لعارض الإمامة العظمى والسلطنة فإن في التقدم عليهما ازدراء وفساد أمر المسلمين فيتحاشى عن ذلك الفساد فيجب تقديم من له حكم عام وأما إمام الحي فيستحب تقديمه على طريق الأفضلية وليس بواجب كما في المستصفى قوله: "لأنه رضيه الخ" قال البرهان الحلبي على هذا لو علم أنه كان غير راض به حال حياته ينبغي أن لا يستحب تقديمه".

(کتاب الصلوۃ، باب احکام الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاته، ص:588، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ثم إمام الحي) فيه إيهام، وذلك أن تقديم الولاة واجب، وتقديم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن يكون أفضل من الولي، وإلا فالولي أولى كما في المجتبى...

(قوله: وذلك أن تقديم الولاة واجب) لأن في التقديم عليهم ازدراء بهم، وتعظيم أولي الأمر واجب، كذا في الفتح. وصرح في الولوالجية والإيضاح وغيرهما بوجوب تقديم السلطان، وعلله في المنبع وغيره بأنه نائب النبي - صلى الله عليه وسلم - الذي هو أولى بالمؤمنين من أنفسهم فيكون هو أيضا كذلك إسماعيل (قوله بشرط إلخ) نقل هذا الشرط في الحلية، ثم قال: وهو حسن، وتبعه في البحر (قوله إمام المسجد الجامع) عبر عنه في شرح المنية بإمام الجمعة. [تنبيه]

وأما إمام مصلي الجنازة الذي شرطه الواقف وجعل له معلوما من وقفه فهل يقدم على الولي كإمام الحي أم لا للقطع بأن علة الرضا بالصلاة خلفه في حياته خاصة بإمام المحلة؟ والذي يظهر لي أنه إن كان مقررا من جهة القاضي فهو كنائبه، وإن من جهة الناظر فكالأجنبي أفاده في البحر. وخالفه في النهر بأن ما مر في باب الإمامة من تقديم الراتب على إمام الحي يقتضي تقديمه هنا عليه. واستظهر المقدسي أنه كالأجنبي مطلقا لأنه إنما يجعل للغرباء، ومن لا ولي له.

أقول: وهذا أولى لما يأتي من أن الأصل أن الحق للولي، وإنما قدم عليه الولاة وإمام الحي لما مر من التعليل وهو غير موجود هنا".

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنازۃ، ج:2، ص:220، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100545

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں