بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازہ جنازہ میں ہاتھ چھوڑنے میں اصح الاقوال


سوال

کیا جنازہ میں پہلے سلام کے بعد پہلے ہاتھ چھوڑنا اور  دوسرے سلام پر دوسرے ہاتھ چھوڑنا ہے؟راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

جنازہ کی نماز میں سلام پھیرتے وقت ہاتھ کب چھوڑیں؟ اس میں تین  قول ہیں:

ایک قول یہ ہے کہ چوتھی تکبیر کہہ کہ سلام سے پہلے دونوں ہاتھ چھوڑ دے، پھر دونوں طرف سلام پھیر دے ۔ [1]

دوسرا قول یہ ہے کہ چوتھی تکبیر کہہ کر دونوں طرف سلام پھیر نے کے بعد دونوں ہاتھ چھوڑے ۔[2]

تیسرا قول یہ ہے کہ چوتھی تکبیر کہہ کر دائیں طرف سلام پھیر کر دایاں ہاتھ چھوڑدے اور بائیں طرف سلام پھیر کر بایاں ہاتھ چھوڑ دے ۔ 

ان میں دوسرےقول (چوتھی تکبیر کہہ کر دونوں طرف سلام پھیر نے کے بعد دونوں ہاتھ چھوڑے)کے مطابق اکابر کا عمل اور دار العلوم دیوبند[3] اور  ہمارے دارلافتاء کا فتوی ہے؛ کیوں کہ "سلام "اللہ کا نام ہونے کی وجہ سے ذکرِ مسنون میں داخل ہے، اور ذکرِ مسنون میں ہاتھ باندھنا بہتر ہے۔

[1]خلاصة الفتاوی میں ہے:

"ولایعقد بعد التکبیر الرابع؛ لأنه لایبقی ذکر مسنون حتی یعقد، فالصحیح أنه یحل الیدین، ثم یسلم تسلیمتین، کذا في الذخیرة."

(خلاصة الفتاوی،کتاب الصلاۃ،ج:1، ص:225، ط:شیدیه کوئٹه)

[2]"البحر الرائق شرح كنز الدقائق" میں ہے:

"وقت الوضع ففي ظاهر الرواية وقته كلما فرغ من التكبير فهو سنة قيام له قرار فيه ذكر مسنون فيضع حالة الثناء، وفي القنوت وتكبيرات ‌الجنازة."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق، آداب الصلاة، ج:1، ص:326، ط: دارا الکتب العلمیه)

"الهداية شرح بداية المبتدي" میں ہے:

"والأصل أن ‌كل ‌قيام ‌فيه ‌ذكر ‌مسنون ‌يعتمد ‌فيه ومالا فلا هو الصحيح فيعتمد في حالة القنوت وصلاة الجنازة."

(مدخل، ج:1، ص:49، ط:دار إحیاء التراث الإسلامي)

 "العناية شرح الهداية"میں ہے:

"والصحيح ما قاله شمس الأئمة الحلواني وهو الذي أشار إليه في الكتاب أن كل قيام فيه ذكر مسنون، فالسنة فيه الاعتماد كما في حالة الثناء والقنوت وصلاة الجنازة، وكل قيام ليس فيه ذكر مسنون فالسنة فيه الإرسال فيرسل في القومة عن الركوع وبين تكبيرات الأعياد، وبه كان يفتي شمس الأئمة السرخسي وبرهان الأئمة والصدر الشهيد. وذكر في فتاوى قاضي خان: وكلما فرغ من التكبير يضع يده اليمنى على اليسرى تحت السرة، وكذا في تكبيرات العيد وتكبيرات الجنازة والقنوت ويرسل في القومة."

(باب صفة الصلوة، ج:1، ص:287، ط:دار الفكر)

"البناية شرح الهداية" میں ہے:

"ثم ‌الاعتماد) ش: هذه إشارة إلى بيان القسم الرابع وهو وقت وضع اليدين، وقد ذكرنا أن لوضع اليدين أربعة أوجه: نفس الوضع، وصفته، ومكانه، وقد ذكرناه، والرابع وقت الوضع، وأشار المصنف إلى ذلك بقوله: ثم ‌الاعتماد؛ أي اعتماد يده اليمنى على اليسرى م: (سنة القيام عند أبي حنيفة وأبي يوسف، حتى لا يرسل حالة الثناء) ش: أي حالة قراءة سبحانك اللهم، وعن محمد: أنه سنة القراءة فإذا أخذ في القراءة اعتمد.

م: (والأصل) ش: في هذا الباب م: (أن كل قيام فيه ذكر مسنون يعتمد فيه وما لا فلا) ش: أي وما لا يكون فيه ذكر مسنون لا يعتمد فيه م: (وهو الصحيح) ش: احترز به عن قول أصحاب الفضلي كأبي علي النسفي والإمام أبي عبد الله الخيري وغيرهما، حيث قالوا: إنه يعتمد في كل قيام، سواء كان فيه ذكر مسنون أو لا؛ تحقيقا لخلاف الروافض لعنهم الله فإن مذهبهم إرسال اليد من أول الصلاة، فنحن نخالفهم من أول الصلاة م: (فيعتمد في حالة القنوت وصلاة ‌الجنازة) ش: هذا بحسب الأصل المذكور، فلذلك ذكره بالفاء؛ أي فيضع يديه ولا يرسلهما في حالة قراءة القنوت لأنه ذكر مسنون، وكذلك في صلاة الجنازة."

(البناية شرح الهداية، باب الصفة الصلاة،  ج:2، ص:182، ط: دار الكتب العلمية )

"المحيط البرهاني في الفقه النعماني" میں ہے:

"وكان الشيخ الإمام شمس الأئمة الحلواني يقول كل قيام فيه ذكر مسنون، فالسنّة فيه ‌الاعتماد كما في حالة الثناء والقنوت وصلاة ‌الجنازة."

 (المحيط البرهاني في الفقه النعماني، کتاب الصلاۃ،  ج:1،ص:365، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

"فتح الغفور في وضع الأيدي.... " میں ہے:

"ثم ‌الاعتماد سنة القيام عند أبى حنيفة وأبى يوسف حتى لا يرسل حالة الثناء، والأصل أن كل قيام فيه ذكر مسنون يعتمد فيه، ومالا فلا، هو الصحيح، فيعتمد في حالة القنوت، وصلاة ‌الجنازة."

(فتح الغفور في وضع الأيدي على الصدور،ص:87، ط: مكتبة الغرباء الأثرية)

[3]فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

سلام ہاتھ چھوڑ کر پھیرنا چاہئے یا باندھے ہوئے

(سوال ۲۸۷۳) زید کہتا ہے کہ نماز جنازہ میں چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیرنا چاہئے اور عمر اس بارہ میں زید کی سخت مخالفت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس مقام پر ارسال درست نہیں ہے،پس صورت مسئولہ میں کس کا قول صحیح ہے ؟

(الجواب ) زید کا قول قاعدہ فقیہہ کے موافق ہے، مولانا عبدالحی لکھنوی مرحوم نے سعایہ جلد ثانی باب صفۃ الصلوۃ میں بالتصریح بیان کیا ہے:

" ومن ههنا يخرج الجواب عما سئلت في سنة ست وثمانين ايضاً من أنه هل يضع مصلى الجنازة بعد التكبير الأخير من تكبيراته ثم يسلم أم يرسل ثم يسلم وهو أنه ليس بعد التكبير الأخير ذكر مسنون فيسن فيه الأرسال انتهى،سعایہ، مطبوعہ مصطفائی ص ۱۵۹ واللہ اعلم بالصواب،کتبہ ابو القاسم محمد عبد السلام مدرس مدرسہ انجمن ہدایت الاسلام مالیگاؤں۔

جواب قابل تامل ہے، واللہ اعلم کتبہ ابوالا مجد محمد عبدالعلیم، عفی عنہ ،

پہلا جواب قواعد سے درست ہے جزئی نہیں دیکھی ، واللہ اعلم اشرف علی عفی عنہ تھانوی۔

اقول و به نستعین عمر کا قول صحیح ہے اور تصریح فقہاء رحمہم اللہ کے موافق ہے حيث قال فی الدر المختار يضع حالة الثناء وفي القنوت وتكبيرات الجنازة- پس لفظ تکبیرات ہر چہار تکبیرات کو عام ہے،  چوتھی تکبیر کو اس سے کسی نے مستثنیٰ نہیں فرمایا اور قاعدہ وضع ید کے بھی موافق ہے اور عمل امت کے مطابق ہے، واضح ہو کہ جنازہ کی ہر تکبیر کے بعد ذکر مسنون ہے ، اول کے بعد ثنااور دوسری کے بعد درود شریف، تیسری کے بعد دعا، چوتھی کے بعد تسلیم، ان میں سے ہر ایک ذکر مسنون ہے، (در مختار میں ہے وهو أي الوضع سنة قيام إلى أن قال فيه ذكر مسنون قال في الشامي قوله فيه ذكر مسنون أي مشروع فرضا كان أو واجبا أو سنة، شامي ص ٤٥٥ باب صفة الصلوة ج ۱ اور در مختار میں بھی باب الجنائز میں ہےويسلم بلا دعاء بعد الرابعة قال الشامي قوله بلا دعاء هو ظاهر المذهب وقيل يقول اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة الخ الحاصل زید جو بعد تکبیر رابع ارسال کا قائل ہے یہ قول روایۃً صحیح نہیں ہے عمر کا قول جو کہ وضع کا قائل ہے صحیح ہے، چوتھی تکبیر کے بعد ذکر کے مشروع ہونے میں کلام نہیں اگر خلاف ہے تو دعا کی مشروعیۃ میں ہے اور ذکر عام ہے جو سلام کو بھی شامل ہے، اور فقہاء کا عموماً تکبیرات جنازہ میں وضع کو مسنون فرمانا دلیل کافی ہے، بغیر تصریح خلاف کے خلاف کرنا صحیح نہیں معلوم ہوتا، واللہ تعالیٰ اعلم ، کتبہ عزیز الرحمن عفی عنہ ۔"

(فتاوی دالعلوم دیوبند ، ج:5، ص:218، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں