بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازے کے ساتھ چالیس قدم چلنے کی شرعی حیثیت


سوال

جنازے کے ساتھ 40 قدم چلنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

جنازہ میں چالیس  قدم چلنے کے متعلق  ایک حدیث شریف میں  آیا ہے کہ جس نے کسی مسلمان کے جنازے کو چالیس قدم تک اٹھایا تو اس کے چالیس بڑے گناہ معاف ہوں گے، فقہاء نے اس کی یہ صورت ذکر کی ہے میت  کی چارپائی کے چاروں پائے  باری باری اٹھا ئے، اس طور پر کہ پہلے میت کے دائیں ہاتھ والے پائے کو اپنے دائیں کندھے  پر اٹھا کر دس قدم چلے، پھر میت کے دائیں پاؤں والے پائے کو اپنے دائیں کندھے پر اٹھا کردس قدم چلے، اور اس کے بعد میت کے بائیں ہاتھ والے پائے کو اپنے بائیں  کندھے پر اٹھاکر دس قدم چلے اور پھر میت کے بائیں پاؤں والے پائے کو اپنے بائیں کندھے پر اٹھاکر دس قدم چلے۔

واضح رہے کہ مذکورہ طریقے کے مطابق جنازے کو چالیس قدم اٹھانا مستحب ہے، اس سے کم یا زیادہ اٹھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔اور جو  بعض علاقوں میں رواج ہے کہ جنازہ  اُٹھاتے وقت  چالیس قدم تک گنے جاتے ہیں اور میت کو اس کا ثواب پہنچایا جاتا ہے اور اس کو  لازم سمجھا جاتا ہے، اس طریقے سے قدم گننے اور ان کا ثواب پہنچانے کا شرعاً  کوئی ثبوت نہیں، یہ رسم واجب الترک ہے۔

المعجم الأوسط للطبراني" میں ہے:

"سمعت أنس بن مالکؓ قال: قال رسول الله  صلی الله  علیه وسلم: من حمل جوانب السریر الأربع کفر الله  عنه أربعین کبیرةً."

( باب الميم،ج:6، ص:99، ط:دار الحرمين) 

"المبسوط للسرخسي" میں ہے:

«ومن أراد كمال السنة في حمل الجنازة ينبغي له أن يحملها من الجوانب الأربع يبدأ بالأيمن المقدم لأن النبي عليه الصلاة والسلام كان يحب التيامن في كل شيء والمقدم أول الجنازة والبداءة بالشيء من أوله ثم بالأيمن المؤخر ثم بالأيسر المقدم ثم بالأيسر المؤخر لأنه لو تحول من الأيمن المقدم إلى الأيسر المقدم احتاج إلى المشي أمامها والمشي خلفها أفضل فلهذا يتحول من الأيمن المقدم إلى الأيمن المؤخر والأيمن المقدم جانب السرير الأيسر فذلك يمين الميت ويمين الحامل وينبغي أن يحمل من كل جانب عشر خطوات جاء في الحديث ‌من ‌حمل ‌جنازة ‌أربعين خطوة كفرت له أربعون كبيرة"

(كتاب الصلوة، باب حمل الجنازة، ج:2،ص: 56،ط:العلمية)

"الفتاوی التاتارخانیة" میں ہے:

"ثم اعلم أن في حمل الجنازة شیئین، نفس السنة وکمالها، أما نفس السنة: هي أن یأخذ بقوائمها الأربع علی طریق التعاقب بأن یحمل من کل جانب عشر خطوات۔ جاء في الحدیث: من حمل جنازةً أربعین خطوةً کفرت له أربعون کبیرةً."

( کتاب الصلاة، حمل الجنازة،ج:3،ص:34،ط: زکریا)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا حمل الجنازة وضع) ندبا (مقدمها) بكسر الدال وتفتح وكذا المؤخر (على يمينه) عشر خطوات لحديث «من حمل جنازة أربعين خطوة كفرت عنه أربعين كبيرة» (ثم) وضع (مؤخرها) على يمينه كذلك، ثم مقدمها على يساره ثم مؤخرها كذلك، فيقع الفراغ خلف الجنازة فيمشي خلفها؛ وصح «أنه عليه الصلاة والسلام حمل جنازة سعد بن معاذ."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، ج:2،ص: 231،ط: سعيد)

فقط واللہ تعالی اعلم


فتوی نمبر : 144508100547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں