بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ گاہ میں کنواں کھودنے کا حکم


سوال

جنازہ گاہ میں کنواں کھودنا شرعاً جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

ۣبصورتِ مسئولہ اگر جنازہ گاہ   کی زمین موقوفہ ہے، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے، تو اس کی زمین پر کسی کے لیے ملکیتی تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں،  بلکہ جس مقصد کے لیے وقف ہے اسی میں استعمال کرنا لازم ہے۔ نیز اگر مذکورہ جنازہ گاہ میں مزید حاجت نہ رہی تو اس زمین کو کسی ایسے مصرف میں استعمال کیا جائے جو وقف ہی ہو ،مثلاً: کنواں، مدرسہ ، مسجد وغیرہ بناکر وقف کردیا جائے، ذاتی ملکیت میں لینا کسی صورت جائز نہیں۔ اور اگر وہ زمین قبرستان اور اس کے مصالح کے لیے وقف ہے  اور وہاں لائن کا پانی نہیں ہے، اور کنواں اسی مقصد سے کھودا جارہاہے کہ قبرستان کے مصالح (قبروں کی لپائی، چھڑکاؤ وغیرہ امور) اس سے پورے کیے جائیں تو وقف کے مصالح کے پیشِ نظر کنواں کھودنے کی اجازت ہوگی۔

اور اگر جنازہ گاہ کی زمین کسی کی ذاتی ملکیت ہے، تو مذکوہ مالک اپنی مرضی سے کنواں کھود سکتا ہے۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء و وقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية."

(کتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع، ج:2، ص:362، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201432

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں