بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت کا وقت اذان سے کتنے وقفے کے بعد ہونا چاہیے؟


سوال

جماعت کا وقت اذان سے کتنے وقفے کے بعد ہوتا ہے؟

جواب

واضح ہو کہ مغرب  کی نماز  کے علاوہ  باقی تمام نمازوں میں اذان اور  نماز ـ(اقامت) کے درمیان اتنا وقت ہونا چاہیےکہ  کھانا کھانے  والا کھا پی کر  فارغ ہو جائے اور قضائے حاجت کرنے والا اپنی ضروریات سہولت کے ساتھ پوری کر کے فارغ ہو  کر جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے عام طور پر مساجد میں  نماز ظہر، عصر ، عشاءاورفجر میں پندرہ  سے بیس منٹ کا وقفہ ہوتا ہے، یہ مناسب وقفہ ہے۔

البتہ مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے،لہذاصورتِ مسئولہ   میں مغرب کی نماز کے علاوہ باقی تمام نمازوں میں پندرہ سے بیس منٹ کا فاصلہ ہوناچاہئے۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لبلال: «إذا أذنت فترسل وإذا أقمت فاحدر واجعل بين أذانك وإقامتك قدر ما يفرغ الآكل من أكله والشارب من شربه والمعتصر إذا دخل لقضاء حاجته ولا تقوموا حتى تروني»."

(كتاب الصلاة، باب الاذان، الفصل الثاني، ج:1،ص:204،ط: المكتب الإسلامي )

"ترجمہ :حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال سے فرمایا اے بلال جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر اذان کہو اور جب اقامت کہو تو جلدی جلدی کہو اور اذان اور تکبیر میں اتنا ٹھہرو کہ کھانے والا کھانے سے اور پینے والا پینے سے قضائے حاجت کو جانے والا اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے اور تم نہ کھڑے ہوا کرو جب تک مجھے دیکھ نہ لو۔"

مشكاة المصابيح  میں ہے :

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أسفروا بالفجر فإنه أعظم للأجر»."

(كتاب الصلاة، باب تعجيل الصلاة، الفصل الثاني، ج:1،ص:194،ط:المكتبة الإسلامي)

"ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی نماز روشنی میں پڑھو کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے ۔"

بدائع الصنائع  میں ہے :

"وروي أنه - صلى الله عليه وسلم - «قرأ بالمعوذتين في صلاة الفجر يوما فلما فرغ قالوا: أوجزت، فقال - صلى الله عليه وسلم -: سمعت بكاء صبي فخشيت على أمه أن تفتتن» دل على أن الإمام ينبغي له أن يراعي حال قومه؛ ولأن مراعاة حال القوم سبب لتكثير الجماعة فكان ذلك مندوبا إليه."

(كتاب الصلاة، فصل في سنن حكم التكبير أيام التشريق، ج:1،ص:206،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يستحب تأخير الفجر ولا يؤخرها بحيث يقع الشك في طلوع لشمس بل يسفر بها بحيث لو ظهر فساد صلاته يمكنه أن يعيدها في الوقت بقراءة مستحبة. كذا في التبيين وهذا في الأزمنة كلها إلا صبيحة يوم النحر للعاج بالمزدلفة فإن هناك التغليس أفضل. هكذا في المحيط."

(کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني في بيان فضيلة الأوقات، ج: 1، ص: 51 و52، ط: دارالکفر)

وایضا فیہ:

"مقدار ركعتين أو أربع يقرأ في كل ركعة نحوًا من عشر آيات، كذا في الزاهدي. و الوصل بين الأذان و الإقامة مكروه بالاتفاق ... ينبغي أن يؤذن في أول الوقت ويقيم في وسطه حتى يفرغ المتوضئ من وضوئه والمصلي من صلاته والمعتصر من قضاء حاجته. كذا في التتارخانية ناقلًا عن الحجة."

(کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتهم، ج: 1 صفحه: 56 و57، ط: دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں