بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کا حکم، متعدد قسموں


سوال

اگر کوئی شخص قسم کھا لے کے آج کے بعد میں یہ کام نہیں کروں گا، تو پھر اس نے وہ قسم بار بار توڑدی تو اب اس کا کفارہ کیسے اور کتنا دےگا؟ اور کفارہ ایک ہی دےگا یا جتنی دفعہ قسم توڑی ہے اتنی دفعہ کفارہ دینا ہو گا ؟قسم یہ تھی کہ وہ شخص غسل جنابت کی حالت میں جاکرمسجد میں نماز پڑھ لیتا تھا مسجد میں بیٹھ جاتا تھا اور کبھی کبھی تلاوت قرآن بھی کر لیتا تھا ہے اور یہ بات یاد رکھی جائے وہ یہ کام مجبوری کی حالت میں کرتا تھا مجبوری کچھ حد تک سخت بھی تھی اور کچھ حد تک اگر وہ وقت پرغسل کرتا تو کر بھی سکتا تھا ؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص حالتِ جنابت (یعنی غسل واجب ہونے کی حالت میں) نماز پڑھنے کو جائز اور درست سمجھتا ہے، یا دین یا نماز کے استخفاف، حقارت اور اہانت کی غرض سے غسل واجب ہونے کی صورت میں غسل کے بغیر نماز پڑھتا ہے،  تو  ایسا شخص حکمِ شرعی کی اہانت، استخفاف اور  فرض کے انکار کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی لازم ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص غسل جنابت کیے بغیر  نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتا، اور نہ ہی شریعت کی اہانت کی غرض سے ایسا کرتا ہے، بلکہ لاعلمی میں یا غلطی سے یا سستی، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے وضو یا غسل جنابت کیے بغیر نماز پڑھتا ہے تو  اس سے یہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، اگر چہ سستی اور کاہلی وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنا  گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہوگااور نماز کا اعادہ  لازم ہوگا۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایک کام کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق قسم کھا کر اسے توڑ دے تو اس پر ایک ہی کفارہ لازم ہوتا ہے اگر چہ وہ کام متعدد مرتبہ کر لے ، لیکن  اگر متعدد قسمیں متعدد  کاموں کے کرنے یا نہ کرنے کی کھائیں ہوں اور  پھر ان قسموں کو توڑ دیا ہو تو ہر قسم کو توڑنے کے بدلہ ایک  کفارہ ادا کرنا لازم  ہوتاہے۔  متعدد کاموں کی قسموں کے کفارہ میں تداخل  نہ ہو گا (یعنی ایک کفارے میں تمام توڑی ہوئی قسموں کے کفاروں کی نیت کرنا درست نہیں)، بلکہ ہر قسم کا الگ الگ کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔

صورتِ  مسئولہ  میں  مذکورہ شخص نے ایک ہی کام   نہ کرنے  (کہ جنابت کی حالت میں نماز نہیں پڑھوں گا مسجد نہ جاؤں گا وغیرہ) کی قسم کھا کر کئی مرتبہ توڑ لی ہے تو  صورت میں ایک ہی کفارہ لازم ہو گا۔ اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ:   دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے، یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )، اور  اگر ’’جو‘‘  دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے۔  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔

نیز   مذکورہ شخص غسل جنابت کیے بغیر  نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتا، اور نہ ہی شریعت کی اہانت کی غرض سے ایسا کرتا ہے، بلکہ لاعلمی میں یا غلطی سے یا سستی، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے وضو یا غسل جنابت کیے بغیر نماز پڑھتا ہے تو  اس سے یہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، اگر چہ سستی اور کاہلی وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنا  گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہوگااور نماز کا اعادہ  لازم ہوگا۔

لیکن اگر یہ شخص جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے، تلاوت کرنے اور مسجد میں داخل ہونے کو جائز اور درست سمجھتا ہے، یا دین یا نماز کے استخفاف، حقارت اور اہانت کی غرض سے غسل واجب ہونے کی صورت میں غسل کے بغیر نماز پڑھتا ہے،  تو  ایسا شخص حکمِ شرعی کی اہانت، استخفاف اور  فرض کے انکار کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) شرائط أركان الصلاة: (فمنها) الطهارة بنوعيها من الحقيقية والحكمية، والطهارة الحقيقية هي طهارة الثوب والبدن ومكان الصلاة عن النجاسة الحقيقية، والطهارة الحكمية هي طهارة أعضاء الوضوء عن الحدث، وطهارة جميع الأعضاء الظاهرة عن الجنابة.

(أما) طهارة الثوب وطهارة البدن عن النجاسة الحقيقية فلقوله تعالى:{وثيابك فطهر}[المدثر: 4]، وإذا وجب تطهير الثوب فتطهير البدن أولى.(وأما) الطهارة عن الحدث والجنابة فلقوله تعالى:{يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم} [المائدة: 6]إلى قوله:{ليطهركم}[الأنفال: 11].

و قول النبي صلى الله عليه وسلم : «لا صلاة إلا بطهور»، و قوله عليه الصلاة والسلام: «لا صلاة إلا بطهارة» وقوله صلى الله عليه وسلم: «مفتاح الصلاة الطهور». وقوله تعالى:{وإن كنتم جنباً فاطهروا} [المائدة: 6]، وقوله صلى الله عليه وسلم: «تحت كل شعرة جنابة ألا فبلوا الشعر وأنقوا البشرة» ، والإنقاء هو التطهير، فدلت النصوص على أن الطهارة الحقيقية عن الثوب والبدن، والحكمية شرط جواز الصلاة".

(کتاب الصلاۃ ج:1، ص: 114،ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب، كما في الخانية. (قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال: المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لايؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ، ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لايؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافراً، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصاً: أي والاستخفاف في حكم الجحود. (قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة: وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية: لايكون كفراً، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفراً عند الكل. اهـ.أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لايكون كفرا عند الكل، تأمل".

(كتاب الطهارة، ج: 1، ص: 81، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي البحر عن الخلاصة والتجريد: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين، والمجلس والمجالس سواء؛ ولو قال: عنيت بالثاني الأول ففي حلفه بالله لايقبل، وبحجة أو عمرة يقبل. وفيه معزياً للأصل: هو يهودي هو نصراني يمينان، وكذا والله والله أو والله والرحمن في الأصح. واتفقوا أن والله والرحمن يمينان، وبلا عطف واحدة.

 (قوله: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية (قوله: وبحجة أو عمرة يقبل) لعل وجهه أن قوله: إن فعلت كذا فعلي حجة، ثم حلف ثانياً كذلك يحتمل أن يكون الثاني إخباراً عن الأول، بخلاف قوله: والله لاأفعله مرتين؛ فإن الثاني لايحتمل الإخبار؛ فلاتصح به نية الأول، ثم رأيته كذلك في الذخيرة. وفي ط عن الهندية عن المبسوط: وإن كان إحدى اليمينين بحجة والأخرى بالله تعالى فعليه كفارة وحجة (قوله: وفيه معزياً للأصل إلخ) أي وفي البحر: والظاهر أن في العبارة سقطاً، فإن الذي في البحر عن الأصل: لوقال: هو يهودي هو نصراني إن فعل كذا، يمين واحدة، ولو قال: هو يهودي إن فعل كذا، هو نصراني إن فعل كذا، فهما يمينان (قوله: في الأصح) راجع للمسألتين: أي إذا ذكر الواو بين الاسمين فالأصح أنهما يمينان سواء كان الثاني لايصلح نعتاً للأول أو يصلح، وهو ظاهر الرواية. وفي رواية يمين واحدة، كما في الذخيرة. قلت: لكن يستثنى ما في الفتح حيث قال: ولو قال: على عهد الله وأمانته وميثاقه ولا نية له فهو يمين عندنا ومالك وأحمد. وحكي عن مالك يجب عليه بكل لفظ كفارة؛ لأن كل لفظ يمين بنفسه، وهو قياس مذهبنا إذا كررت الواو كما في والله والرحمن والرحيم إلا في رواية الحسن. اهـ. (قوله: واتفقوا إلخ) يعني أن الخلاف المذكور إذا دخلت الواو على الاسم الثاني وكانت واحدةً، فلو تكررت الواو مثل والله والرحمن فهما يمينان اتفاقاً؛ لأن إحداهما للعطف والأخرى للقسم، كما في البحر. وأما إذا لم تدخل على الاسم الثاني واو أصلاً، كقولك: والله الله، وكقولك: والله الرحمن فهو يمين واحدة اتفاقاً، كما في الذخيرة، وهذا هو المراد بقوله: وبلا عطف واحدة".

(كتاب الأيمان، ج: 3، صفحہ: 714، ط: ایچ، ایم، سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

’’ایک امر پر چند قسموں سے ایک ہی کفارہ کافی ہوجاتا ہے۔‘‘

  (کتاب الیمین و النذر ، ج: 2/ صفحہ: 245 /ط:  دار الاشاعت)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں