بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمع بین الصلاتین کا حکم


سوال

میرا دوست سویڈن سٹڈی اور جاب کے سلسلہ میں گیا ہے، وہاں جس کمپنی میں وہ جاب کر رہا ہے ،کمپنی والے اس کو بولتے ہیں کہ آپ مغرب اور عشاء کی نماز اکٹھی اپنے روم میں پہنچ کر پڑھا کریں کمپنی میں ادا نہ کیا کریں اس میں اس کے لیے قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں  ہرنماز  کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے  اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقررہے، چاہے وہ فجر کی نمازہو، یاظہر کی نمازہو، یاعصر کی نمازہو، یامغرب ہو، یاعشاء ہو،یا جمعہ ہو؛ان نمازوں کو اپنے اوقات میں پڑھنافرض ہے؛  اس لیے احناف کے نزدیک دوفرض نمازوں کو حقیقتاً ایک وقت میں جمع کرنا نہ مقیم کے لیے جائز ہے اور  نہ ہی مسافر کے لیے  جائز ہے ،البتہ بیماری سفر  وغیرہ کے عذر کی وجہ  سے صورتاً دونمازوں  کوجمع کرناجائزہے جیسے مغرب کوآخری وقت میں ادا کیاجائے اورمغرب کی نماز سے فارغ ہوکر عشاء کی نماز کو  اول  وقت میں ادا کریں  ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا،مذکورہ  حدیث میں  دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے،ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے،ایک اور روایت میں  حضرت عمررضی اللہ عنہ کا فرمان ہے،جس میں انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ:  امراء لوگوں کو دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنے سے  روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ  دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرنا  کبیرہ گناہ ہے،اگر اس کی اجازت ہوتی تو  حضرت عمررضی اللہ عنہ  ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے، معلوم ہوا کہ  دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرکے پڑھنا  جائز نہیں ہے۔

لہٰذا مذکورہ بالا تمہید کے پیشِ نظر  جمع بین الصلاتین(یعنی دونمازوں کوایک ساتھ پڑھنا )  کی صورت اختیار کرنا کسی صورت جائز نہیں اور  اگر کوئی  نماز  اُس  کے اپنے وقت میں نہیں پڑھی گئی، بلکہ  وقت سے پہلے پڑھ  لی  گئی تو وہ ادا ہی نہیں ہوگی اور وقت کے بعد پڑھی گئی تو بالقصد قضا کرنے کا  گناہ ہوگاان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے،نیز ملحوظ رہے کہ کسی بھی ادارہ والوں کی طرف سے اپنے ملازمین کوفرض نمازکواپنے وقت میں اداکرنے سے روکناجائز نہیں،اگر ادارہ کی طرف سےبدستور  اس قسم کی پابندی کا سامناکرے  تو مسلمان ملازمین  کو چاہئےکہ وہ کسی دوسری جگہ ملازمت کی کوشش کریں اورجیسے ہی دوسری جگہ مل جائے یہ جگہ چھوڑدیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَت عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ (النساء:103)

ترجمہ: ’’بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے‘‘(بیان القرآن)۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ‌جمع ‌بين ‌الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر."

ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر،ج:1،ص:356،رقم الحديث:188،ط:مطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

موطا امام مالك میں ہے:

"قال محمد: بلغنا،عن عمر بن الخطاب،أنه «كتب في الآفاق، ينهاهم أن يجمعوا بين الصلاتين، ويخبرهم أن ‌الجمع ‌بين ‌الصلاتين في وقت واحد كبيرة من الكبائر»،أخبرنا بذلك الثقات."

ترجمہ :حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ: امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے،اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیاہے۔"

(‌‌باب:الجمع بين الصلاتين في السفر والمطر،ص:82،رقم الحديث:204،ط:المكتبة العلمية)

الدرمع الرد میں ہے:

"(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)."

 (قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''.

(كتاب الصلاة،ج:1،ص:381،ط:سعيد)

حضرت انس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ارتحل قبل أن تزيل الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع."

(صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر،ج:1،ص:489،دار إحياء التراث العربي ببيروت)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتے،اور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔

رد المحتار میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى."

(كتاب الإجارة،باب ضمان الأجير،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلةج:6،ص:70،ط:سعید)

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي سفيان، قال: سمعت جابرا رضي الله عنه يقول: سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول: «إن بين الرجل و بين الشرك و الكفر ترك الصلاة»."

(ج:1، ص:88، ط: دار إحياء التراث العربي)

"ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ : نماز کا چھوڑنا بندہ مؤمن اور شرک و کفر کے درمیان (کی دیوار کو ڈھا دیتا) ہے۔"(مظاہر حق جدید)

مسند احمدمیں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه: ذكر الصلاة يوما فقال: من حافظ عليها كانت له نورا و برهانا و نجاة يوم القيامة، و من لم يحافظ عليها لم يكن له نور و لا برهان و لا نجاة و كان يوم القيامة مع قارون و فرعون و هامان و أبي بن خلف."

 (ج:11، ص:141، ط: مؤسسة الرسالة)

"ترجمہ:حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا ذکر کیا (یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے) تو اس کے لیے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہوگی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی، اور جو شخص نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے لیے نہ (ایمان کے) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی،) نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی، بلکہ ایسا شخص قیامت کے روز قارون، فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہوگا۔"(مظاہر حق جدید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں