بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے اذان اول کے بعد کیےجانے والے نکاح کاحکم


سوال

جمعہ کی اذان اول کے بعد نکاح پڑھانے سے نکاح منعقد ہوجائے گایانہیں ؟

تفسیر "ذخیرۃ الجنان " میں سورۃ جمعہ کی تفسیر کے ذیل میں  ( احکام القرآن لابی بکر ابن العربی  ) کے حوالے سے لکھاہے کہ نکاح منعقد نہیں ہوگا اعادہ لازم ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں نکاح جمعہ  کے اذان اول کے بعد مسجد سے باہر گھر میں پڑھاگیاتھا ۔

جواب

صورت مسئولہ میں  جمعہ کے اذان اول ہوجانے کے بعد ہر وہ معاملہ  ناجائز ہوجاتاہے جو سعی الی الجمعہ میں  مخل ہو  ، لہذ ا ہر ایسا معاملہ سے اجتناب کرنا چاہیے جو جمعہ  میں تاخیر کا باعث ہو ،خواہ  وہ خریدوفروخت ہو یانکاح ہو، تاہم  جمعہ کے اذا ن اول کے بعد کیے جانے والا نکاح منعقد ہوجاتاہے ، اس کا اعادہ   لازم نہیں ۔

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"وفي " المحلى " يصح البيع إلا أن بعدالصلاة ولا يصح بخروج الوقت، ولو كان بين كافرين ولا يحرم نكاح ولا إجارة ولا سلم۔"

(کتبا بالصلوۃ ،باب الجمعۃ3/106ط:دار الفکر)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وفي (المحلى) : يفسخ البيع إلى أن تقضى الصلاة، ولا يصححه خروج الوقت، ولو كانا كافرين، ولا يحرم  نكاح ولا إجارة ولا سلم. وقال مالك: كذلك في البيع الذي فيه سلم، وكذا فيالنكاحوالإجارة والسلم، وأباح الهبة والقرض والصدقة. وعن الثوري: البيع صحيح وفاعله عاص لله تعالى، وروى ابن القاسم عن مالك: أن البيع مفسوخ وهو قول أكثر المالكية، وروى عنه ابن وهب وعلي بن زياد: بئس ما صنع، ويستغفر الله تعالى. وقال عنه: ولا أرى الربح فيه حراما. وقال ابن القاسم: لا يفسح ما عقد منالنكاح، ولا يفسخ الهبة والصدقة والرهن والحمالة. وقال أصبغ: يفسخالنكاح. وقال ابن التين: كل من لزمه التوجه إلى الجمعة يحرم عليه ما يمنعه منه من بيع أو نكاح أو عمل. قال: واختلف فيالنكاحوالإجارة، قال: وذكر القاضي أبو محمد: أن الهبات والصدقات مثل ذلك."

(باب المشی الی الجمعة6/204ط: دار إحياء التراث العربي)

الدرالمختار میں ہے:

"(ووجب سعي إليهاوترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) في الأصح وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان. وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريما۔

وفی الرد :وحاصله أن السعي نفسه فرض والواجب كونه في وقت الأذان الأول ۔۔۔۔(وقولہ وترك البيع) أراد به كل عمل ينافي السعي وخصه اتباعا للآية نهر۔"

( کتاب الصلوۃ باب الجمعۃ 2/161ط:سعید)

خیرالفتاوی میں ہے:

"جمعہ کی اذان اول کے بعد مجلس نکاح کا انعقاد منع ہے ، لیکن ایسی مجلس میں پڑھا گیا نکاح فاسد نہیں اور اعادے کی بھی حاجت نہیں ، پس اولاد صحیح النسب تصور کی جائے گی ۔"

(کتاب النکاح 4/408ط:مکتبہ امدادیہ ملتان )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں