بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جسمانی تکلیف کی وجہ سے تراویح 8 رکعت پڑھنا


سوال

کیا جسمانی تکلیف کی وجہ سے  آٹھ رکعات  تراویح  پڑھی   جاسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بیس رکعت تراویح سنتِ  مؤکدہ ہے اور   عذر کے بغیر اس کا  چھوڑنے والا گناہ گار ہے؛  لہذا سائل کو چاہیے کہ اگر جسمانی تکلیف کی وجہ سے کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتا تو  بیٹھ کر  نماز ادا کرلے اور بیٹھنے  کی صورت میں سجدہ پر اگر قادر ہے تو سجدہ زمین پر کرتا رہے  اور  اگر سجدہ پر قادر نہیں ہے تو  پھر سجدہ  اشارہ سے کرلے،  اگر بیٹھ کر بھی نہیں ادا کر سکتا تو لیٹ کر تراویح ادا کرلے۔

اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ  جسمانی تکلیف زیادہ ہے تو ختمِ  قرآن تو ترک کرسکتا ہے، لیکن  سورت تراویح جس ہیئت میں ممکن ہو ادا کرتا رہے۔ قدرت کے باوجود  (چاہے  وہ بیٹھ کر ہو یا لیٹ کر ہو)  آٹھ  رکعت تراویح پڑھنے کی صورت میں سنت کےچھوڑنے کی وجہ سے سائل گناہ گار ہوگا۔ 

الفتاوى الهندية میں ہے:

«وهي سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم و قيل: هي سنة عمر - رضي الله عنه - والأول أصح، كذا في جواهر الأخلاطي. وهي سنة للرجال والنساء جميعا، كذا في الزاهدي.ونفس التراويح سنة على الأعيان عندنا كما روى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقيل: تستحب والأول أصح.»

(کتاب الصلاۃ باب النوافل ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۱۶،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

«(التراويح سنة) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعًا»

(قوله: سنة مؤكدة) صححه في الهداية وغيرها، وهو المروي عن أبي حنيفة. وذكر في الاختيار أن أبا يوسف سأل أبا حنيفة عنها وما فعله عمر، فقال: التراويح سنة مؤكدة، ولم يتخرجه عمر من تلقاء نفسه، ولم يكن فيه مبتدعا؛ ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم.

(کتاب الصلاٰۃ باب الوتر و النوافل ج نمبر ۲ص نمبر ۴۳،ایچ ایم سعید) 

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في السنن والنوافل

«(قوله: وسنّ مؤكدًا) أي استنانًا مؤكدًا؛ بمعنى أنه طلب طلبًا مؤكدًا زيادة على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبةً من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر كما في شرحه وقدمنا بقية الكلام على ذلك في سنن الوضوء.»

(کتاب الصلاۃ باب الوتر والنوافل ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۲،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں