بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جسم کے غیر ضروری بال کاٹنے کی حدود


سوال

جسم کے بال کہا ں تک کاٹنے چاہییں؟

جواب

واضح رہے کہ زیرِ ناف بال کاٹنا واجب ہے، اس کا مقصد نجاست سے اچھی طرح پاکی حاصل کرنا  ہے، نیز  زیرِ ناف بالوں کی صفائی  امورِفطرت میں سے بھی ہے، اور مستحب یہ ہےکہ ہر ہفتے  میں جمعہ کے دن جسمانی اصلاح و صفائی کا یہ کام کیا جائے، دو ہفتوں میں ایک بار کرنا جائز ہے اور آخری حد 40 دن  تک کی ہے، چالیس دن سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہِ تحریمی اور گناہ کا باعث ہے۔

زیرِ ناف بال کاٹنے کی حد یہ ہے کہ اگر آدمی اکڑوں بیٹھے تو ناف سے تھوڑا نیچے، جہاں پیٹ میں بل پڑتا ہے وہاں سے رانوں کی جڑوں تک، اورپیشاب  کی جگہ کے اردگرد جہاں تک نجاست لگنے کا امکان ہو، خصیتین، اسی طرح پاخانہ کے مقام کے آس پاس کاحصہ اور رانوں کا صرف وہ حصہ جہاں نجاست ٹھہرنے یا لگنے کا خطرہ ہو، یہ تمام بال کاٹنے کی حد ہے۔اسی طرح وہ بال جو دبر کے قریب ہوں اور ان میں نجاست رہ جانے کا امکان ہو انہیں کاٹنا بھی ضروری ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بلکہ یہ بدرجہ اولیٰ کاٹنے چاہییں۔  مردوں کے لیے زیر ناف بال بلیڈ سے اور عورتوں کے بال صفا پاوڈر وغیرہ سے صاف کرنا زیادہ بہتر ہے۔

اس کے علاوہ بغل کے نیچے کے غیر ضروری بال بھی اکھاڑ لیے جائیں، اگر اکھاڑنا مشکل ہو تو بلیڈ وغیرہ سے بھی صاف کیے جاسکتے ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

49 - (257)" عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْفِطْرَةُ خَمْسٌ - أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ - الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ»".

51 - (258) " عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: - قَالَ أَنَسٌ -: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً»".

(صحيح مسلم (1/ 221)،باب: ‌‌16 - بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ، كِتَابِ الطَّهَارَةِ،ط:  دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ 40 روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔

شامی میں ہے:

"(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة وجاز في كل خمسة عشرة، وكره تركه وراء الأربعين، مجتبى.

 (قوله: وكره تركه) أي تحريماً لقول المجتبى: ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك: روى مسلم عن أنس بن مالك: «وقت لنا في تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لانترك أكثر من أربعين ليلةً». وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع اهـ".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 406)، ط: سعید)

عالمگیری میں ہے:

"ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة، ولو عالج بالنورة في العانة يجوز، كذا في الغرائب".

(الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها (5/358)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202151

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں