بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھ پر مذی لگ کر خشک ہوگئی اور یہی ہاتھ تیل والے بالوں میں پھیرا اور پسینہ آلود پیشانی کو لگایا تو کیا بال اور پیشانی ناپاک ہوجائیں گے؟


سوال

ہاتھ  پر مذی لگ کر خشک ہوگئی، میں نے غلطی سے وہی ہاتھ بالوں پر پھیرا جو کہ تیل سے چکنے تھے، اور پھر اپنے ماتھے پر ہاتھ کی انگلیاں پھیریں اور ناخن سے سر کھجایا، ماتھے اور سر پر پسینہ بھی تھا؟ کیا میرا ماتھا اور سر ناپاک ہوگیا؟ اب مجھے صحیح سے یاد نہیں کہ مذی کے اثرات سر اور ماتھے تک پہنچے بھی تھے یا نہیں؟ مجھے یہ بھی صحیح سے یاد نہیں کہ میرے ماتھے اور سر پر ناپاکی کے اثرات ( رنگ، بو، ذائقہ) ظاہر ہوئے یا نہیں،کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہےكہ مذی ناپاک ہے، نجاستِ غلیظہ ہے، کپڑے اور بدن پر لگنے سے  کپڑا اور بدن ناپاک ہوجاتا ہے، اگر مذی کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار  ایک درہم  (5.94 مربع سینٹی میٹر) سے کم ہو اور  اس کو دھوئے بغیر نماز پڑھ لی ہو تو نماز ہوجائے گی، (اگرچہ اس مقدار میں بھی نجاست کو دھو لیناچاہیے) اور اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہو تو  نماز نہیں ہوگی۔
 صورتِ مسئولہ میں سائل کےہاتھ اورانگلیوں پرلگی  ہوئی مذی خشک ہوگئی، اور اس نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور سر کجھایا جس پر پسینہ تھا، لہذا اگر مذی کے اثرات میں سے کوئی اثر اس کے بالوں اور پیشانی پر ظاہر ہوا ہو تو بال اور پیشانی ناپاک ہیں ورنہ نہیں، اور اگرنجاست کے اثرات پیشانی اور بالوں میں ظاہر ہونے نہ ہونے میں شک ہو تو محض شک کی وجہ سے ناپاکی کا حکم نہیں لگے گا، بلکہ بالوں اور پیشانی کو پاک سمجھا جائے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) ‌أنواع ‌الأنجاس فمنها ما ذكره الكرخي في مختصره: أن كل ما يخرج من بدن الإنسان مما يجب بخروجه الوضوء أو الغسل فهو نجس، من البول والغائط والودي والمذي والمني، ودم الحيض والنفاس والاستحاضة والدم السائل من الجرح والصديد والقيء ملء الفم."

(كتاب الطهارة،فصل في الطهارة الحقيقية، ج:1، ص:60، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"النجاسة إن كانت غليظةً وهي أكثر من قدر الدرهم فغسلها فريضة والصلاة بها باطلة وإن كانت مقدار درهم فغسلها واجب والصلاة معها جائزة وإن كانت أقل من الدرهم فغسلها سنة وإن كانت خفيفة فإنها لا تمنع جواز الصلاة حتى تفحش. كذا في المضمرات."

(کتاب الصلوة، الباب الثالث فى شروط الصلوة، الفصل الأول الطهارة و سترالعورة، ج:1، ص:58، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً :

"إذا نام الرجل على فراش فأصابه مني ويبس فعرق الرجل وابتل الفراش من عرقه إن لم يظهر أثر البلل في بدنه لا يتنجس وإن كان العرق كثيرا حتى ابتل الفراش ثم أصاب بلل الفراش جسده فظهر أثره في جسده يتنجس بدنه كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطهارة،الباب السابع، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ج:1، ص:47، ط: رشیدية)

الاشباہ و النظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة الثالثة: ‌اليقين ‌لا ‌يزول ‌بالشك ودليلها ما رواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا {إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا، أو يجد ريحا}."

(الفن الأول، القواعد الکلیة، ص:48، ط: دار الکتب العلمیه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512100792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں