بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جسم کے کسی حصے کو کھانا


سوال

اگر کوئی بندہ اپنےجسم کا کوئی حصہ کھا لے(جیسے ہونٹ کا جلد یا گوشت) تو کیا وہ حرام ہیں اور اگر حرام ہے اور کھا لیا تو عبادات قبول ہوں گی یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

انسان کے جسم کے اعضاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں، اس میں کسی قسم کا ناجائز تصرف کسی انسان کے لیے جائز نہیں ہے، لیکن ہونٹ کی زائد کھال اگر کھا لی جائے تو وہ پھٹ جانے اور منکسر ہو جانے کی وجہ سے وہ حکم نہیں رکھتی جو ایک کامل جزء رکھتا ہے، یعنی ایک مکمل جزء کو بلا ضرورت کاٹ دینے کا جو گناہ ہے وہ گناہ نہیں ہو گا، تاہم اس سے اجتناب کرنا چاہیے، اگر کسی نے ایسا کر بھی لیا تو عبادات اپنی جگہ مقبول ہوں گی۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: جلدة الآدمي إذا وقعت في الماء القليل إلخ) قال ابن أمير حاج وإن كان دونه لا يفسده صرح به غير واحد من أعيان المشايخ ومنهم من عبر بأنه إن كان كثيرا أفسده وإن كان قليلا لا يفسده وأفاد أن الكثير ما كان مقدار الظفر وأن القليل ما دونه، ثم في محيط الشيخ رضي الدين تعليلا لفساد الماء بالكثير؛ لأن هذا من جملة لحم الآدمي، وقد بان من الحي فيكون نجسا إلا أن في القليل تعذر الاحتراز عنه فلم يفسد الماء لأجل الضرورة وفيه قبل هذا قال محمد عصب الميتة وجلدها ‌إذا ‌يبس ‌فوقع ‌في ‌الماء ‌لا ‌يفسده؛ لأن باليبس زالت عنه الرطوبة النجسة."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:‌‌جلدة آدمي إذا وقعت في الماء القليل، ج:1، ص:243، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو لف في مبتل بنحو بول، ‌إن ‌ظهر ‌نداوته أو أثره تنجس وإلا لا."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس، ‌‌فصل الاستنجاء، ج:1، ص:347، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503102455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں