بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس زمین پر قبرستان ہونے کا شبہ ہو وہاں مسجد تعمیر کرنا


سوال

ہمارے علاقے میں ایک قدیم ویران جگہ موجود ہے جہاں مختلف درخت وغیرہ لگے ہوۓ ہیں ان درختوں کی آمدنی وغیرہ مسجد میں خرچ کی جاتی ہے ، ایک طویل العمر آدمی کا کہنایہ  ہے کہ  میری معلومات کے مطابق یہاں دو ڈھائی سو سال قبل جنگ ہوئی تھی انہیں یہاں دفنایا گیا ، مقتولین کون تھے مسلم یا غیر  اس بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں۔نیز اس جگہ کے وقف ہونے پر کسی قسم کا کوئی ثبوت موجود نہیں اور نہ یہ کسی کی ملکیت میں فی الحال واقع ہے، کوئی واضح قرائن و شواہد یہاں موجود نہیں جو قبرستان ہونے کی نشاندہی کرتے ہو ں ، البتہ ارد گرد کے غیر واضح قسم کے معمولی نشانات پتھر (سل) وغیرہ اس کے قبرستان ہونے کو ظاہر کررہے ہیں لیکن واضح ثبوت کوئی موجود نہیں ہے ،لوگوں نے اپنے مکانات کی حدود سے  کچھ تجاوز کرتے ہوۓ اس جگہ کے بعض حصے کو اپنے مکانات میں شامل کیا ہے۔ اب علاقے کے کچھ معززین اور معتبر افراد کا خیال یہ ہے کہ اس جگہ پر مسجد تعمیر کردی جاۓ ، علاقے کو مسجد کی ضرورت بھی ہے ، لہذا آپ شرعی نکتہ نگاہ سے رہنمائی کہ ایسی غیر ملکیتی وغیر موقوفہ جگہ پر (جہاں قبرستان کے شکوک وشبہات موجود ہوں ) مسجد بنانا کیساہے۔

جواب

 واضح رہے کہ ہر علاقے میں لوگوں کی ضرورت کے مطابق مسجد بنانا فرضِ کفایہ ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لہذا اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو، اور وہاں ایسی خالی زمین ہو جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، بلکہ مصالحِ عوام کے لیے ہو، اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے، مسلمانوں کے لیے نماز اور اس کے انتظام سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی۔ 

صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ جگہ کے متعلق شک ہے کہ اس جگہ کبھی قبرستان واقع تھا ، اور کوئی واضح دلیل اور  یقینی بات  نہیں  ہے  اور قبر وں کے نشانات بھی  مٹ گئے ہیں  اور  اگر بالفرض قبریں تھیں تو وہ مٹی ہو چکی ہیں، علاقے میں  مسجد کی ضرورت بھی ہے تو مذکورہ جگہ پر مسجد تعمیر کرنا شرعاً درست ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے: 

"ولو بلى ‌الميت وصار ‌ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين."

(كتاب الصلاۃ، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السابع في الشهيد، ج: 1، ص:  167، ط : دارالفکر)

عمدة القاري میں ہے:

"قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمین عفت، فبنی قوم فیها مسجدًا لم أر بذٰلک بأسًا؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاهم، لا یجوز لأحد أن یملکها، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیها جاز صرفها إلی المسجد؛ لأن المسجد أیضًا وقف من أوقاف المسلمین لا یجوز تملیکه لأحد، فمعناهما واحد. وأما المقبرة الداثرة إذا بُني فیها مسجد لیصلي فیها، فلم أر فیه بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناهما واحد".

( كتاب الصلاة، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد، ج:4، ص:39، ط: دار إحياء التراث العربي)

الموسوعة الفقہية الكويتية میں ہے:

"يجب بناء المساجد في الأمصار والقرى والمحال - جمع محلة - ونحوها حسب الحاجة وهو من فروض الكفاية".

(مسجد، ‌‌بناء المساجد وعمارتها ووظائفها، ج: 37، ص: 195، ط: دار الصفوة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں