بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس قرض کے ملنے کی امید نہ ہو اس پر زکاۃ کا حکم


سوال

 ایک شخص کو میں نے قرض دیا ،اب چار پانچ سال ہوگیا ،ابھی تک وصول ہونے کا کوئی امکان نہیں ،اگر 20 سال بعد مجھے یہ رقم وصول ہوئی تو کیا زکوٰۃ 20 سال کی ادا کرنا ہوگی یا صرف ایک سال کی؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  اگر  قرض دینے والے  کو اپنا قرض وصو ل ہونے کی امید نہ ہو یا وصول ہونے میں  تردد ہویامقروض ٹال مٹول کر رہا ہو تو اس قرض کی زکاۃ اس وقت تک ادا کرنا واجب نہیں جب تک کہ وہ قرض وصول نہ ہوجائے، البتہ جب وصول ہو جائے گا، تو پچھلے(ان) تمام سالوں کی زکاۃ واجب ہوگی(جن میں اس رقم کی زکاۃ ادا نہیں کی)۔

فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:

"جس وقت قرض وصول ہوجائےاس وقت پچھلے سالوں کی زکاۃ   بھی دینا واجب ہے، اور جس سے وصول نہ ہو اس کی زکاۃ اس وقت واجب نہیں، لیکن اگر کبھی وصول ہوگیا تو پچھلے برسوں کی بھی زکاۃ دینا واجب ہے۔"

(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج ۶، ص ۷۵، کتاب الزکاۃ، ط: دار الاشاعت)

ہاں اگر قرض خواہ سائل کے قرض کا ہی  انکار کر رہا ہو   اور اس کے خلاف گواہ یا دلائل بھی نہ ہوں تو ایسے قرض کی زکاۃ وصول ہونے سے پہلے ادا کرنا لازم نہیں، بلکہ وصول ہونے کے بعد ادا کرنا لازم ہے،اور جتنا  قرض وصول ہوتا رہےگاصرف    اتنے مال کی زکاۃ  ادا کرنا لازم ہو گی،اور جو قرض باقی ہوگا اس کی زکاۃ کی ادائیگی بھی لازم نہیں ہوگی، اورجو قرض وصول ہوگا اس کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی اس پر واجب نہیں ہوگی ۔

در مختار میں ہے:

"(ودين) كان (جحده المديون سنين) ولا بينة له عليه (ثم) صارت له بأن (أقر بعدها عند قوم) وقيده في مصرف الخانية بما إذا حلف عليه عند القاضي، أما قبله فتجب لما مضى(مصادرة) أي ظلما (ثم وصل إليه بعد سنين) لعدم النمو. والأصل فيه حديث علي «لا زكاة في مال الضمار» وهو ما لا يمكن الانتفاع به مع بقاء الملك(ولو كان الدين على مقر مليء أو) على (معسر أو مفلس)أي محكوم بإفلاسه (أو) على (جاحد عليه بينة) وعن محمد لا زكاة، وهو الصحيح، ذكره ابن ملك وغيره لأن البينة قد لا تقبل (أو علم به قاض) سيجيء أن المفتى به عدم القضاء بعلم القاضي (فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى) وسنفصل الدين في زكاة المال."

شامی میں ہے:

"(قوله مليء) فعيل بمعنى فاعل وهو الغني ط. وفي المحيط عن المنتقى عن محمد: لو كان له دين على وال وهو مقر به إلا أنه لا يعطيه وقد طالبه بباب الخليفة فلم يعطه فلا زكاة فيه، ولو هرب غريمه وهو يقدر على طلبه أو التوكيل بذلك فعليه الزكاة وإن لم يقدر على ذلك فلا زكاة عليه. اهـ.

(قوله: وعن محمد لا زكاة) أي وإن كان له بينة بحر (قوله: وهو الصحيح) صححه في التحفة كما في غاية البيان وصححه في الخانية أيضا وعزاه إلى السرخسي بحر. وفي باب المصرف من النهر عن عقد الفرائد: ينبغي أن يعول عليه.

قلت: ونقل الباقاني تصحيح الوجوب عن الكافي قال: وهو المعتمد، وإليه مال فخر الإسلام اهـ ولذا جزم به في الهداية والغرر والملتقى وتبعهم المصنف. والحاصل أن فيه اختلاف التصحيح ويأتي تمامه في باب المصرف (قوله: لأن البينة إلخ) ولأن القاضي قد لا يعدل، وقد لا يظفر بالخصومة بين يديه لمانع فيكون: أي الدين في حكم الهالك بحر."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، 2 / 266، كتاب الزكاة، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها الملك المطلق...  فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما.وتفسير مال الضمار هو كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك كالعبد الآبق والضال، والمال المفقود، والمال الساقط في البحر، والمال الذي أخذه السلطان مصادرة، والدين المجحود".

(کتاب الزکاۃ،فصل الشرائط التي ترجع إلى المال،ج:2،ص:9،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں