بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس عورت کو حیض نہ آرہا ہو اس کی عدت کا حکم


سوال

ایک عورت کو طلاق ہوئی ہے تو اس کی عدت تو تین حیض ہے، لیکن اب تین ماہ ہو گئے ہیں اس کو حیض نہیں آ رہا ہے، وہ حاملہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ وہ عرصہ تین سال سے اپنے والدین کے گھر ہے اور جس دن اس کو طلاق ہوئی ہے اسی دن اس نے حیض سے پاکی کا غسل کیا تھا ،تو اب وہ کیا کرے؟ کیا تین ماہ گزرنے کے بعد اس کی عدت مکمل ہو جائے گی یا نہیں؟ کیوں کہ ابھی اتنی عمر بھی نہیں ہے کہ حیض آنے کے مدت ختم ہو جائے۔

جواب

واضح رہے کہ جس عورت کو ماہواری  آتی ہو یعنی وہ چھوٹی بچی یا  بوڑھی عورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا حیض مکمل بند ہوگیا ہے، اس کی طلاق کی عدت مکمل تین ماہواریاں ہیں (اگر حمل نہ ہو)،اگر چہ ماہواری  آنے میں تاخیر ہوجائے، ایسی عورت کی عدت مہینوں کے اعتبار سے نہیں ہوتی ۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائلہ کی عدت تین ماہوریاں ہیں ،سائلہ کو چاہیے کہ   ماہواری    وقت پر آنے کے لئے   ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرکے اپناعلاج کرے۔

رد المحتار میں ہے:

"و عندنا ما لم تبلغ حد الإياس لا تعتد بالأشهر وحده خمس وخمسون سنة هو المختار لكنه يشترط للحكم بالإياس في هذه المدة أن ينقطع الدم عنهامدة طويلة وهي ستة أشهر في الأصح ثم هل يشترط أن يكون انقطاع ستة أشهر بعد مدة الإياس، الأصح أنه ليس بشرط حتى لو كان منقطعا قبل مدة الإياس ثم تمت مدة الإياس وطلقها زوجها يحكم بإياسها وتعتد بثلاثة أشهر هذا هو المنصوص في الشفاء في الحيض وهذه دقيقة تحفظ اه."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:516، ط:سعيد)

النہر الفائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:2، ص:476، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كانت آيسة فاعتدت بالشهور، ثم رأت الدم انتقض ما مضى من عدتها، وعليها أن تستأنف العدة بالحيض ومعناه إذا رأت الدم على العادة؛ لأن عودها يبطل الإياس هو الصحيح كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر، ج:1، ص:529، ط:رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں