بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے اس کی عدت کب سے شمار ہوگی اور اپنے نفقہ کے لیے گھر سے نکلنے کا حکم


سوال

ایک  عورت بیوہ ہو گئی ( شو ہر کا انتقال ہو گیا )  آٹھ دن تک عورت شوہر کے گھر میں عدت گزارنے کی نیت سے بیٹھ گئی ، مگر گھر والوں کے تنگ کرنے اور لڑائی جھگڑے ہو نے کی وجہ سے اور بچوں کا خرچہ نہ اٹھانے کی وجہ سے عورت کو گھر سے نکا ل دیا  اور عورت باہر کرایہ کے مکان میں رہتی ہے ،اور لو گوں کے گھروں پر کام کاج کر کے اس سے اپنے گھر کا کرایہ اور بچوں کے اخراجات اٹھا تی ہے ، سوال یہ ہے کہ عورت جو آٹھ دن تک شوہر کے گھر پر عدت گزارنے کی نیت سے بیٹھی تھی  پھر اسے نکال دیا گیا یہ دن عدت میں شمار  ہوں گے؟

کیا دورانِ  عدت یہ عورت خود گھر  سےباہر کا م کا ج  کے لیے نکل سکتی ہے ؟ جب کہ  بچوں کی کفالت و اخراجات کا کو ئی ذمہ دار نہیں ۔

وضاحت : مذکورہ عورت کی اپنے شوہر سے چار ، پانچ سال تک ناراضگی رہی ، کوئی طلاق وغیرہ نہیں دی گئی ، پھر بعد میں آپس میں معافی تلافی (شوہر کی بیماری میں ) ہوگئی ،لیکن اس درمیان بھی کوئی جسمانی تعلق نہیں رہا ۔ 

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں بیوہ عورت  کی عدت چار مہینہ دس دن ہے ، لہذا عورت پر مذکورہ  عدت  کا گزارنا واجب ہے ، اور عدت کی ابتدا  شوہر کے انتقال کے وقت سے  ہو جا تی ہے ، لہذ ا  صورتِ  مسئولہ میں عورت جو آٹھ دن شوہر کے گھر پر عدت گزارنے کی نیت سے بیٹھی تھی یہ ایام عدت میں شمار  ہوں گے، اور  میاں ، بیوی کے درمیان چار ، پانچ  سال تک  انتقال سے پہلے جو جدائی (بغیر طلاق کے) رہی ہے اس سے عدت کے ایام میں فرق نہیں  آئے گا ۔ 

عورت  کے لیے دوران عدت گھر سے نکلناجائز نہیں ہے ، البتہ اگر نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو تو اس صورت میں دن میں نکلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے گھر واپس آجائے۔ 

الدر المختار میں ہے:

"(‌ومعتدة ‌موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح.

(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ص:536، ج:3، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں