بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جزی اللہ عنّا محمدا کی ایک فضیلت کی تحقیق


سوال

جزی اللہ عنّا محمدا  اگر کوئی شخص اس کو  ایک بار پڑھے تو ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور لکھتے لکھتے فرشتے تھک جاتے ہیں۔  ‎

ایک صاحب  نے یہ حدیث ذکر کی ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ 

جواب

ایک روایت میں یہ الفاظ ورارد ہوئے ہیں کہ ’’"جزى الله عنا محمدا بما هو أهله" جس نے یہ   الفاظ کہے،تو  اس نے ستر فرشتوں کوہزار دن تک تھکا دیا( یعنی اس کا ثواب مسلسل لکھتے رہیں گے)، سوال میں مذکور کہ’’  ایک بار پڑھے تو ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں‘‘ غالبا سننے کی غلطی معلوم ہوتی ہے،  روایت ملاحظہ فرمائیں: 

یہ درود شریف ،  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے تین  مختلف سندوں سے مروی ہے:

پہلی سند:

"حدثنا أحمد بن رشدين قال: نا هانئ بن المتوكل قال: نا معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال: جزى الله عنا محمدا بما هو أهله، أتعب سبعين كاتبا ألف صباح".

لم يرو هذا الحديث عن عكرمة إلا جعفر بن محمد، ولا عن جعفر إلا معاوية بن صالح، تفرد به: هانئ بن المتوكل."

"ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے  الفاظ کہے:"جزى الله عنا محمدا بما هو أهله" تو  اس نے ستر فرشتوں کوہزار دن تک تھکا دیا(یعنی اس کا ثواب مسلسل لکھتے رہیں گے)۔"

(المعجم الأوسط للطبراني، (1/ 82)برقم (235)،(ت: طارق عوض الله)، دار الحرمين القاهرة)

اس سند میں "ہانئ بن المتوکل" ضعیف راوی ہیں۔ امام ابن حبان  رحمہ اللہ تعالی ( 354ھ)ان کے متعلق فرماتے ہیں:

" كان تدخل عليه المناكير فكثر المناكير في رواياته، فلا يجوز الاحتجاج به بحال. "

(كتاب المجروحين لابن حبان، (18/ 446) رقم الترجمة(1171)، (ت: حمدي عبد المجيد السلفي) دار الصميعي،الرياض، ط: الأولى، 1420ھ)

دوسری سند:

"رشدين بن سعد، ثنا معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال: جزى الله محمداً عنا ما هو أهله، أتعب سبعين كاتباً ألف صباح".

(الترغيب والترهيب لقوام السنة، باب الترغيب في الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، (2/ 331) برقم (1700)، دار الحديث القاهرة، ط: الأولى، 1414ھ)

اس سند میں "رشدین بن سعد" ہیں، جو متکلم فیہ راوی ہیں، جن کے متعلق جرح کے اقوال ،تعدیل کے اقوال سے زیادہ ہیں،تاہم ان کا ضعف سوء حفظ،  قلت ضبط، اور غفلت کی وجہ سے ہے، عدالت میں کوتاہی کی بناپر نہیں۔

تفصیل کے لیے دیکھیں: 

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال للمزي، (9/ 191 و195) رقم الترجمة (1911)،  مؤسسة الرسالة، بيروت، ط: الأولى، 1400ھ)

تیسری سند:

 "أحمد بن حماد، عن معاوية بن صالح، عن جعفر بن محمد، عن عكرمة، عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من قال: "جزى الله عنا محمدا بما هو أهله" أتعب سبعين كاتبا ألف صباح".

اس سند کی طرف حافظ سخاوی رحمہ اللہ تعالی( 902ھ) نے اشارہ کیا ہے، اور اسے "ہانی بن المتوکل"، اور" رشدین بن سعد" کا متابع قرار دیا ہے، اور "ابو الیمن"  کے بقول "معاویہ بن صالح" کے طریق سے اس روایت کو مشہور قرار دیا ہے،چناں چہ وہ فرماتے ہیں:

"وتابعهم  أحمد بن حماد وغيره كلهم عن معاوية بن صالح والحديث مشهور به، كما قال أبو اليمن."

"ہانی ابن المتوكل" اور" رشدين بن سعد" کی متابعت "احمد بن حماد" اور دیگر روات نے کی ہے، وہ سب "معاویہ بن صالح "سے روایت کرتے ہیں، اور حدیث اس طریق سے مشہور ہے ،جیسا کہ "ابو الیمن "نے کہا ہے۔"

(القول البدیع للسخاوی، الباب الأول، (ص: 116)، (ت: الشيخ محمد عوامة حفظه الله تعالى) مؤسسة الريان، ط: الأولى،1422ھ)

حافظ سخاوی رحمہ اللہ تعالی کی مذکورہ عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حدیث "معاویہ بن صالح" کے طریق سے متعدد سندوں سے مروی ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث  اس طریق سے درجہ شہرت کو پہنچی ہوئی ہے۔

شواہد:

اس روایت کے بہت سے شواہد ہیں، بعض کافی ضعیف ہیں، اسی لیے انہیں بیان کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے، البتہ صحیح احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ جب تمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے تو اس کے لیے اللہ تعالی سے دعا کی جائے:

"عن أسامة بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من صنع إليه معروف فقال لفاعله: جزاك الله خيرا فقد أبلغ في الثناء".

وقال الترمذي: "هذا حديث حسن جيد غريب، لا نعرفه من حديث أسامة بن زيد إلا من هذا الوجه وقد روي عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله."

"حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ  عنہ فرماتے ہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ بھلائی اور نیکی کی گئی، اوراس نے اچھائی کرنے والےسے :"جزاك الله خيرا"كہہ دیا، تو تحقیق اس نے تعریف میں انتہا کردی۔"

(سنن الترمذي، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في المتشبع بما لم يعطه، (3/ 448) برقم (2035)، دار الغرب الإسلامي)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی بھلائیاں اور احسانات  شمار نہیں کیے جا سکتے،اور ان کا کم سے کم حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے دعا کی جائے، اور درود شریف پڑھاجائے، ایک صحیح روایت میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من استعاذ بالله فأعيذوه، ومن سأل بالله فأعطوه، ومن دعاكم فأجيبوه، ومن صنع إليكم معروفا فكافئوه، فإن لم تجدوا ما تكافئونه، فادعوا له حتى تروا أنكم قد كافأتموه".

جس نے اللہ تعالی کی پناہ مانگی اسے پناہ دو، جس نے اللہ تعالی کے نام سے مانگا اسے دےدو، جس نے دعوت پر بلایا ،اسے قبول کرو، جس نے تمہارے ساتھ بھلائی کی، اس کا پورا پورا بدلہ دو، اگر بدلہ کی کوئی چیز موجود نہ ہو، تو اس کے لیے اس قدر دعا مانگوکہ تمہیں یقین ہو جائے کہ تم نے پورا حق ادا کر دیا ہے۔

(سنن أبي داود، كتاب الزكاة، باب عطية من سئل بالله، (2/ 128) برقم(1672)، المكتبة العصرية بيروت)

مذکورہ  روایات کی روشنی میں   ان الفاظ سے درود شریف پڑھنا نہ صرف جائز ، بلکہ بہتر ہے،علاوہ ازیں جب متعدد ضعیف اسانید جمع ہو جائیں ، اور ان میں کوئی متہم یا کذاب راوی نہ ہو، تو ان کی مجموعی حیثیت سے  ضعف کم ہو جاتا ہے، نیز فضائل کے باب میں ایسی روایات کا مقبول ہونا محدثین کے نزدیک  معروف ہے۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں