بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس نوکری کے حصول میں کسی کا حق مارا جاتا ہو تو ایسی نوکری کا کرنا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

میں نےایک سرکاری ادارے میں نوکری کے حصول کی لیے ٹیسٹ دیا تھا ،جوکہ میں نے پاس کرلیا ، ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد میں نے ایک جاننے والے سے جوکہ اس ادارے میں پہلے سے ہوتا ہے سفارش کا کہا ،لیکن مجھے امید تھی کہ میں سفارش کے بغیر میرٹ میں آجاوں گا ،کچھ مہینے بعد میرا نام میرٹ میں آگیا ،اور مجھے انٹرویو اور میڈیکل وغیرہ کی لیے بلایا گیا ، جب یہ سب کچھ میں نے کلیر کر لیا تو مجھے بعد میں اس شخص نے بتایا کہ آپ نے جو ٹیسٹ دیا تھا اس میں نمبر کم ہونے کی وجہ سے آپ کا نام میرٹ میں نہیں آتا تھا ،لہذا میں نے سفارش کر کے آپ کا نام میرٹ میں رکھوایا ،مجھے جب اس بات کا علم ہوا کہ میرٹ میں سفارش اس طرح ہوتی ہے کہ جس کا نام میرٹ میں ہو ،اسے نکال کر سفارش والے کو رکھا جاتا ہے ،تو مجھے بہت دکھ ہوا کہ میری وجہ سے انجانے میں کس کا حق مارا گیا ہوگا ، حالانکہ مجھے اس بات کا علم بالکل بھی نہیں تھا کہ اس طرح کسی کا حق مارا جاتا ہے  ، تو کیا اب میرے لیے وہ نوکری کرنا جائز ہے اور کیا اس کی کمائی حلال ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نمبرات کم آنے اور میرٹ کے مطابق معیار پر نہ اترنے کے باوجود سفارش کے ذریعے ملازمت کا حصول شرعاً جائز نہیں، یہ کسی حقدار کا حق مارنا ہے، اس پر سائل توبہ و استغفار کرے، البتہ زیرِ نظر مسئلہ میں اگر مذکورہ ادارہ میں سائل کا تقرر ہوگیا ہے اور سائل مذکورہ ملازمت میں مفوّضہ امور کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا ہے اور   دیانت داری سے وہ کام کرے تو اس عمل پر ملنے والی تنخواہ حلال ہوگی، اور اگر  اس طرح نوکری کے حصول کے بعد  مفوضہ کام کی انجام دہی کی اہلیت وصلاحیت سائل کے اندرموجود نہ ہو تو سائل کے لیے تنخواہ  بھی حلال نہ ہوگی ۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

‌‌"الشفاعة الحسنة:

 الشفاعة الحسنة: وهي: أن يشفع الشفيع لإزالة ضرر أو رفع مظلمة عن مظلوم، أو جر منفعة إلى مستحق ليس في جرها ضرر ولا ضرار، فهذه مرغوب فيها مأمور بها، قال الله تعالى: {وتعاونوا على البر والتقوى} (4) . وللشفيع نصيب في أجرها وثوابها قال الله تعالى (1) : {من يشفع شفاعة حسنة يكن له نصيب منها}".

(الموسوعة الفقهية الكويتية، ج:26 / ص:132، صادر عن: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى".

(رد المحتار، كتاب الإجارة، ج:6 / :69، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة".

(رد المحتار، كتاب الإجارة، ج:6 / ص:70، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101694

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں