بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس نابالغہ بچی سے شہوت پوری کی ہو اس کی بہن سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟


سوال

مفتی صاحب! ایک مسئلہ پوچھنا ہے، وہ اگر چہ حیاء کے خلاف ہے، لیکن ہمارے ایک ساتھی کودرپیش ہے ،اس لیے پوچھنا لازمی ہے، وہ یہ کہ ایک شخص نے ایک  دو یا تین سالہ بچی کے منہ میں اپنا عضو تناسل ڈالا تھااوراب اس بچی کی بڑی بہن سے اس کانکاح ہورہا ہے۔ کیا یہ نکاح درست ہے یا نہیں؟

جواب

دین کے مسائل و احکام دریافت کرنے میں شرم و حیاء نہیں ہونی چاہیے،اگر شرم و حیاء کا لحاظ کرکے دینی مسائل و احکام معلوم نہیں کیے جائیں گے تو شریعت کے احکام کا علم کیسے ہوگا؟،خود اللہ تعالیٰ فرماتے  ہیں" وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ"(الأحزاب:53) ترجمه: اور اللہ حق بات میں کسی سے نہیں شرماتا."

لہٰذا مسائل دریافت کرنے میں شرم و حیاء کو حجاب نہیں بنانا چاہیے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو سوال نامہ میں مذکور  فعل  شرعاً و اخلاقاً انتہائی  بےغیرتی اور بدتہذیبی  پر مبنی ہے، تاہم  اس بچی کی بہن کے ساتھ  مذکورہ شخص کا نکاح جائز ہے،نیز اس  شخص پر لازم ہے کہ اس فعل ِ بد پر اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سےمعافی مانگے اور خصوصی طور پر توبہ و استغفار کا اہتمام کرے۔

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"قولها (إن الله لا يستحي من الحق) قال العلماء معناه لا يمتنع من بيان الحق وضرب المثل بالبعوضة وشبهها كما قال سبحانه وتعالى أن الله لا يستحي أن يضرب مثلا ما بعوضة فما فوقها فكذا أنا لا أمتنع من سؤالي عما أنا محتاجة إليه وقيل معناه إن الله لا يأمر بالحياء في الحق ولا يبيحه وإنما قالت هذا اعتذارا بين يدي سؤالها عما دعت الحاجة إليه مما تستحي النساء في العادة من السؤال عنه وذكره بحضرة الرجال ففيه أنه ينبغي لمن عرضت له مسألة أن يسأل عنها ولا يمتنع من السؤال حياء من ذكرها فإن ذلك ليس بحياء حقيقي لأن الحياء خير كله والحياء لا يأتي إلا بخير والإمساك عن السؤال في هذه الحال ليس بخير بل هو شر فكيف يكون حياء وقد تقدم إيضاح هذه المسألة في أوائل كتاب الإيمان وقد قالت عائشة رضي الله عنها نعم النساء نساء الأنصار لم يمنعهن الحياء أن يتفقهن في الدين."

(كتاب الحيض، ج:3، ص:223،224، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وصغيرة لم تشته (فلا) تثبت الحرمة بها أصلا كوطء دبر مطلقا وكما لو أفضاها لعدم تيقن كونه في الفرج.

قوله: مشتهاة) سيأتي تعريفها بأنها بنت تسع فأكثر."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:34، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں