بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس مسجد میں تصاویر ہوں اس میں نماز کا حکم


سوال

 ہمارے محلے میں ایک مسجد جو کہ فلیٹوں کی پہلی منزل پر بنی ہوئی ہے ، اور وہاں پر چند دُکانیں بھی بنی ہوئی ہیں ، یعنی نماز پڑھنے کی  جگہ ایسی ہے جس کے دائیں  اور بائیں جانب چند  دکانیں ہیں ، اور یہ جگہ مسجد کی جگہ سے ملی ہوئی ہے تاہم امام صاحب سے لےکر پیچھے تک (دکانوں کے درمیان والے) نمازیوں کے بیچ میں کوئی خلاء نہیں ہے -

اب مسئلہ یہ ہے کہ ان دُکانوں میں سے ایک دُکان پر کچھ انسانوں کی تصاویر بنی ہوئی ہیں ، میں نے اس بات کی طرف امام صاحب کو توجہ دلائی کہ یہاں تصویر یں لگی ہوئی ہیں، تو لوگوں کا نماز پڑھنا کیسا ہے؟ جب کہ میں نے سنا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر میں کسی کپڑے پر جانور کی تصویر بنی ہوئی تھی تو جبرئیل  علیہ السلام ان کے گھر میں داخل نہیں ہو ۓتھے، اس پر امام صاحب نے کہا: کہ میں اس مسئلے کو دیکھتا ہوں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میرا اس مسجد میں جب دوبارہ  نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اُس وقت  بھی اس دُکان پر وہ تصویریں لگی ہوئی تھیں، میں نے دوباره اس طرف توجہ دلائی تو مجھے جواب ملا کے دُکان والا نہیں مانتا ہے۔ میں نے کہا پیار سے سمجھا ئیں، پھر بھی کہا گیا کہ نہیں مانتا ہے ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ایسی مسجد میں فرشتے اور اللہ کی رحمتیں نازل ہو سکتی ہیں اور کیا تمام لوگوں کا ایسی جگہ پر نماز پڑھنا دُرست ہے -

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد کی الگ اپنی  چار دیواری نہیں ہے،بلکہ دکانوں کی دیوار سے ہی مسجد  کی چاردیواری رکھی گئی ہے ،اور مسجد اور دکانوں کے درمیان میں کوئی ایسی چیز حائل نہیں ،جو مسجد کو دکانوں سے علیحدہ کرتی ہو،تو ایسی صورت میں ان دیواروں پر لگے ہوئے اشتہارات کی وجہ سے ایسی مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ ہے ،اور ایسی مساجد میں رحمت کی فرشتے نہیں آتے،برابر دکان دار کو چاہیے کہ وہ ان تصاویر کو فوراً وہاں سے ہٹائے ،بصورتِ دیگر وہ گناہ گار ہوگا۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ حضرت جبرئیل -علیہ السلام- کا گھر میں نہ آنا کپڑے(پردے)  پر جاندار کی تصویر کی وجہ سے بھی تھا، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ  ﷺ کی چار پائی کے نیچے کتے کا بچہ تھا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"أن ‌عبد الله بن عباس قال: أخبرتني ‌ميمونة: « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أصبح يوما واجما، فقالت ميمونة: يا رسول الله، لقد استنكرت هيئتك منذ اليوم. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌إن ‌جبريل ‌كان ‌وعدني أن يلقاني الليلة فلم يلقني، أم والله ما أخلفني. قال: فظل رسول الله صلى الله عليه وسلم يومه ذلك على ذلك، ثم وقع في نفسه جرو كلب تحت فسطاط لنا فأمر به فأخرج، ثم أخذ بيده ماء فنضح مكانه، فلما أمسى لقيه جبريل فقال له: قد كنت وعدتني أن تلقاني البارحة. قال: أجل، ولكنا لا ندخل بيتا فيه كلب ولا صورة، فأصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ فأمر بقتل الكلاب، حتى إنه يأمر بقتل كلب الحائط الصغير، ويترك كلب الحائط الكبير."

(‌‌باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورةؐ، ج:6، ص:156، ط:دار الطباعة العامرة)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أتاني جبريل عليه السلام قال: ‌أتيتك ‌البارحة فلم يمنعني أن أكون دخلت إلا أنه كان على الباب تماثيل وكان في البيت قرام ستر فيه تماثيل وكان في البيت كلب فمر برأس التمثال الذي على باب البيت فيقطع فيصير كهيئة الشجرة ومر بالستر فليقطع فليجعل وسادتين منبوذتين توطآن ومر بالكلب فليخرج ". ففعل رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب اللباس، باب التصاوير، الفصل الثاني، ج:2، ص:1275، رقم:4501، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت ابو ہریرہ-رضی اللہ عنہـ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل-علیہ السلام- آئے اور کہا: گزشتہ شب میں آپ کے پاس آیا تھا، لیکن مجھ کو گھر میں داخل ہونے سے اس بات نے روک دیا کہ دروازے پر تصویریں تھیں اور گھر میں ایک منقش پردہ تھا جس میں تصویریں تھیں، اور گھر میں کتا تھا، آپ تصویروں کے سر جو دروازے کے پردے پر ہیں کاٹ دینے کا حکم دیں، وہ درخت کی صورت ہو جائیں گے، اور پردے کے لیے حکم دیں کے کاٹا جائےاور اس کے دو تکیے بنا لیے جائیں جو روندے جائیں اور کتے کو باہر نکلنے کا حکم دیں، رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کیا۔"

شرح النووی میں ہے:

"‌‌(باب تحريم تصوير صورة الحيوان وتحريم اتخاذ ما فيه صورة غير ممتهنةبالفرش ونحوه وأن الملائكة عليهم السلام لايدخلون بيتا فيه صورة أو كلب)

 قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء ما كان فى ثوب أو بساط أودرهم أو دينار أو فلس أو إناء أو حائط أو غيرها وأما تصوير صورة الشجر ورحال الإبل وغير ذلك مما ليس فيه صورة حيوان فليس بحرام هذا حكم نفس التصوير وأما اتخاذ المصور فيه صورة حيوان فإن كان معلقا على حائط أو ثوبا ملبوسا أو عمامة ونحوذلك مما لايعد ممتهنا فهو حرام وإن كان في بساط يداس ومخدة ووسادة ونحوها مما يمتهن فليس بحرام ولكن هل يمنع دخول ملائكة الرحمة ذلك البيت فيه كلام نذكره قريبا إن شاء الله ولافرق فى هذا كله بين ماله ظل ومالاظل له هذا تلخيص مذهبنا في المسألة وبمعناه قال جماهير العلماء من الصحابة والتابعين ومن بعدهم وهو مذهب الثوري ومالك وأبي حنيفة وغيرهم وقال بعض السلف إنما ينهى عما كان له ظل ولابأس بالصور التي ليس لها ظل وهذا مذهب باطل فإن الستر الذي أنكر النبي صلى الله عليه وسلم الصورة فيه لا يشك أحد أنه مذموم وليس لصورته ظل مع باقي الأحاديث المطلقة في كل صورة وقال الزهري النهي في الصورة على العموم."

(باب تحريم تصوير صورة الحيوان، ج:14، ص:81، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وكره أن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو (بحذائه) يمنة أو يسرة أو محل سجوده (تمثال).

وفي الرد:(قوله تمثال) أي مرسوم في جدار أو غيره أو موضوع أو معلق."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:648، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌ويكره ‌أن ‌يصلي وبين يديه أو فوق رأسه أو على يمينه أو على يساره أو في ثوبه تصاوير وفي البساط روايتان والصحيح أنه لا يكره على البساط إذا لم يسجد على التصاوير وهذا إذا كانت الصورة كبيرة تبدو للناظر من غير تكلف. كذا في فتاوى قاضي خان ولو كانت صغيرة بحيث لا تبدو للناظر إلا بتأمل لا يكره وإن قطع الرأس فلا بأس به."

(كتاب الصلوة، ج:1، ص:107، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں