بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس مسجد میں اذان سے پہلے صلوۃ و سلام پڑھا جاتا ہو وہاں جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

السلام علیکم محترم راہ نمائی فرمائیں کے کیا ایسی مسجد میں نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے سے ہو جاتی ہے جہاں اذان سے پہلے صلوۃ سلام پڑھا جاتا ہو اور انکے باقی افکار بھی ایسے ہوں میلاد وغیرہ کے۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ مسجد کے امام کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ رب العزت کے مانند ہر جگہ حاضر و ناظر، عالم الغیب  اور مختار کل ہیں ، تو جان بوجھ کر ایسے امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی اور اگر عقیدہ درست ہے البتہ بدعت میں مبتلا ہے تو اس کی اقتداء میں نماز  کراہت کے ساتھ ہو جائے گی ، لہذا مجبوری کی صورت میں ایسے امام کی اقتداء میں نماز پڑھ لیں جماعت ترک نہ کریں  اور اگر صحیح عقیدہ والا متقی پرہیزگار امام مل جائے تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیں۔

بدائع الصنائع:

"قال بعض مشايخنا: إن ‌الصلاة ‌خلف ‌المبتدع لا تجوز، وذكر في المنتقى رواية عن أبي حنيفة أنه كان لا يرى ‌الصلاة ‌خلف ‌المبتدع، والصحيح أنه إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز مع الكراهة" 

(فصل  بیان من ھو أحق بالإمامۃ وأولی بہا، ج:1، ص:157، ط:دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌نال ‌فضل ‌الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث «من صلى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي»"

(باب الإمامۃ،ج:1، ص:562، ط:سعید)

فتاوى هنديه میں ہے:

"قال المرغيناني: تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."

(الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج:1، ص:84،ط:رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں