بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1445ھ 20 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس مدرسے میں سی سی ٹی وی کیمرہ نصب ہواس میں تدریس کاحکم


سوال

ً میں بنگلہ دیش کےایک مدرسہ میں مدرس ہوں، اس مدرسہ میں کچھ دن پہلے بعض اساتذہ کے منع کرنے کے باوجود بھی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کیاگیا، ایسی صورتِ حال  میں میرے لیے اس مدرسہ میں خدمت کرنا کیسا ہوگا؟ اگر مذکورہ کیمرہ کے سامنےآنے سے بچنےکےلیےماسک استعمال کرنےيا دوسرا كوئی طريقہ اختيار کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود بھی اس کا استعمال نہیں کیا جائے تو کیا میں گناہ گار ہوں گا؟ 

جواب

واضح رہے کہ جو کیمرے  حفاظت کی غرض سے مختلف مقامات پر لگائے جاتے ہیں اُن میں بھی جاندار کی تصویر سازی ہوتی ہے، پھر  وہ تصاویر متحرک صورت میں اسکرین پر ظاہر ہوتی ہیں اور اُنہیں محفوظ بھی رکھاجاتا ہے،جسے ضرورت پڑنے پر دیکھا بھی جاتاہے، چوں کہ جاندار کی تصویر بنانا ناجائز اور حرام ہے،اس لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنابھی درست نہیں،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مدرسہ میں سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کرناجائز نہیں ، اگر مدرسہ میں کیمرہ نصب کردیاگیا تو اس کاگناہ نصب کرنے اور اس میں معاون بننے والوں پر ہوگا،تاہم سائل کے لیے مذکورہ مدرسہ میں خدمات انجام دینادرست ہےاور حتی الامکان کوشش کی جائے کہ کیمرہ میں تصویر نہ آئے، لیکن اگر تصویر آجائے تو اس کاگناہ سائل پر نہیں ہوگااور سائل پر ماسک وغیرہ پہننا لازم نہیں۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا، انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1 /647، ط: سعيد)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"آپ کی اصل آمدنی تو جائز تھی،لیکن اب آپ کو اپنی جائز ملازمت میں کچھ ایسا کام بھی کرنا پڑتا ہےجس کی شرعًا اجازت نہیں، جائز کام کے مقابلہ میں اگر دوسرا کام کم ہے تو اپنی ملازمت ترک نہ کریں، اگر جائز کام کم ہو  اور دوسرا کام زائد ہوتب بھی فورًا ملازمت ترک نہ کریں، مبادا کہ پریشانی کاسامناہو جوقابلِ برداشت نہ ہو، البتہ دوسری جائز  کسبِ معاش تلاش کرتے رہیں،جب وہ میسر آجائےتب اس موجودہ ملازمت کو ترک کردیں، استغفار بہر حال کرتے رہیں۔"

(کتاب الاجارۃ، باب الاستئجار علی المعاصی، 120/17، ط: ادارہ الفاروق)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں