بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس مدرسہ میں ہندو نے چندہ دیا ہو اس کی عمارت مسجد سے متصل بنانا


سوال

 ہمارے ہاں  ایک مسجد ہے،اس مسجد کے متصل  ایک مدرسہ ہے، حال میں ایک ہندو ایم اے  آدمی نے مدرسہ بنانے کے لیے ایک لاکھ کے قریب رقم دی ہے۔ تو مدرسہ والوں نے ایک لاکھ روپیہ کے ساتھ دوسرے مختلف جگہوں سے چندہ کیے ہوئے روپوں کو ملا کر ایک بلڈنگ بنائی ،اور مدرسے کی بلڈنگ کی چھت مسجد کی بلڈنگ کی چھت سے ملی ہوئی ہے۔ اب اس مسجد کے عام لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مدرسہ کا چندہ مختلف ذرائع سے آتا ہے ۔ اس صورت حال میں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد کی چھت اور مدرسے کی چھت کو ایک ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا کیونکہ مسجد ایک مقدس جگہ ہے اور مدرسہ میں ہندو پیسے ادا کرتے ہیں، اس صورت میں آپ سے گزارش ہے کہ مجھے بتائیں کہ  اگر مسجد کی چھت مدرسہ کی چھت سے ملائی  جائے تو کیا یہ  شریعت کی خلاف ورزی ہوگی؟اور اگر چھت کو الگ کیے بغیر رکھیں تو مسجد والے گنہگار ہوں گے یا نہیں؟ دونوں چھت کو ایک ساتھ رکھنے سے کوئی گناہ تو نہیں ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر ہندو نے  مدرسہ  کے لیے کچھ تعاون کیا ہے، تو اس کو مدرسہ  میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے ۔ اور اس سے مدرسے  کے تقدس میں کوئی فرق نہیں آئے گا،  اور نہ اس کی عمارت میں کوئی  ایسی قباحت پیدا ہوگی کہ جس کی وجہ سے اس کا مسجد کے ساتھ متصل ہونا  ناجائز ٹھہرے۔لہٰذا  ایسے مدرسہ کی عمارت بھی مسجد کے ساتھ متصل بنانا بالکل جائز ہے۔اس لیے کہ مدرسے کا تقدس اس میں دی جانے والی قرآن و سنت کی تعلیم کی وجہ سے ہے، حتیٰ کہ  کافر کا پیسہ  اگر مسجد میں بھی لگ جائے تو اس سے مسجد کے تقدس میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

و فی الأشباہ و النظائر :

"وأما الوقف فلیس بعبادة وضعًا بدلیل صحته من الکافر.فإن نوى القربة فله الثواب، وإلا فلا."

(الفن الأول: القواعد الكلية،القاعدة الأولى لا ثواب إلا بالنية  ص: 20،الناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان)

وفی الشامية:

"لما في البحر وغيره أن شرط وقف الذمي أن يكون قربة عندنا وعندهم كالوقف على الفقراء أو على مسجد القدس، بخلاف الوقف على بيعة فإنه قربة عندهم فقط أو على حج أو عمرة فإنه قربة عندنا فقط فأفاد أن هذا شرط لوقف الذمي فقط؛"

( حاشية ابن عابدين رد المحتار علي الدر المختار،ج:4، ص:341،كتاب الوقف، مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة - ط: سعيد)

فتاوی رشیدیہ میں ہے :

(جواب)’’مدرسہ و مسجد میں ہنود کا روپیہ لگانا درست ہے۔‘‘۔۔۔

(جواب)"جس کافر کے نزدیک مسجد بنانا عمدہ عبادت کا کام ہے ،اس کے مسجد بنانے کو حکم مسجد کا ہوگا۔" ۔۔۔۔۔

(جواب)’’ ہندو کا دیا ہوا چندہ مسجد میں صرف کرنا درست ہےجب کہ وہ بنیت  ثواب دیتا ہو۔‘‘

 (کتاب: وقف کے مسائل، باب: مساجد کے احکام کا بیان، ص 534، دار الاشاعت)

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

''البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية."

(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’ مسجد کے آس پاس عموماً اور بڑی مسجد کے پاس خصوصاً فرش مسجد سے متصل شمالاً و جنوباً شرقاً اور گاہے غرباً خالی جگہ باقی رکھنے کاعام معمول تھا، تاکہ بوقت ضرورت وہاں دینی مدارس ومکاتب قائم کیے جاسکیں، تاکہ تعلیم کا سلسلہ چلے۔۔۔ پس  ایسی جگہ تعلیم گاہ بنانا  اور دینی اجتماعات کرنا ، مواعظ کی مجالس کرنا بلا شبہ درست ہے، یہ سب جگہ متصل مسجد ہونے کی وجہ سے فناء مسجد بھی ہوگی۔‘‘

(کتاب الوقف،باب احکام المساجد، مسجد سے متصل خالی جگہ پر مدرسہ قائم کرنا، 176/23، ط: فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں