بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جس مد کے لیے چندہ کیا گیا ہے اسی مد میں خرچ کیا جائے


سوال

میری بہن کے شوہر کا دوبئی میں ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے انتقال ہوا شوہر کے مرنے کے دو سال بعد میری بہن کا  اپنے دیور کےساتھ  نکاح ہوا،تین دن بعد زبردستی طلاق کروائی گئی ،اب بہن میرے ساتھ میرے گھر  میں اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ رہتی ہے ۔

شوہر کے انتقال کے بعد شوہر کے دوستوں نے دوبئی میں چندہ اکھٹا کرکے شوہر کی یتیم بچیوں کے لیے بھیجاہے،تو اس چندے  کی رقم میں اس کے شوہر کے خاندان میں سے بیوہ اور اولاد کے علاوہ کسی کا کوئی حصہ ہے یا نہیں؟یہ ترتیب رائج ہے کہ جس کا انتقال ہوجاتاہےخاص اس کی اولاد کے لیے  چندہ جمع کرکے بھیجاجاتاہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کے بہنوئی کے انتقال کے بعد مرحوم کے دوستوں نے مرحوم کی یتیم بچیوں کے  لیے چندہ جمع کرکے جو رقم بھیجی ہے، وہ صرف انہیں یتیم بچیوں کا حق ہے ،اس  رقم کو  مذکورہ یتیم بچیوں  کی ضروریات میں ہی خرچ کیا جائے،مرحوم کی بیوہ (سائلہ کی بہن) سمیت شوہر کے خاندان کے کسی فرد کا مذکورہ چندہ کی رقم میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:269،سعید)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :

"سئل أبو نصر عن رجل جمع مال الناس علي أان ينفقه في بناء المسجد فربما يقع في يده من تلك الدراهم فأنفقها في حوائجه ثم يرد بدلها في نفقة المسجد من ماله أيسع له ذلك ؟

قال:لا يسعه أن يستعمل من ذلك في حاجة نفسه فان عرف مالكه رد عليه وسأله تجديد الإذن فيه وإن لم يعرف إستأذن الحاكم فيما أستعمل وضمن."

(کتاب الوقف،ج:8،ص:177،مکتبہ زکریا دیوبند)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"جس جگہ  خرچ کرنے کے لیے وہ  روپیہ  دیا ہے ،اسی جگہ خرچ کرنا لازم ہے ،اگر دوسری جگہ  خرچ کردیا تو ضمان لازم ہوگا ؛اس لیے متولی امین اور وکیل ہے ،معطی کی تصریح کے خلاف خرچ کرنے کا اس کو حق نہیں ۔"

(کتاب الوقف،باب ما یتعلق بالمدارس،ج:15،ص:474،فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100923

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں