اگر کسی لڑکے نے کسی لڑکی کے ہونٹوں کا بوسہ لیا اور اس کہ جسم کو بھی چوما اور اس کی شرم گاہ کو بھی دیکھا اور چھوا بھی اور اس کے اندر انگلی بھی ڈالی، اب اسی لڑکی سے نکاح ہو سکتا ہے اور کیا یہ بھی زنا ہے، مگر اپنی شرم گاہ اس کی شرم گاہ کہ اندر نہیں ڈالی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکے اور لڑکی کا نکاح ہو سکتا ہے ،البتہ مذکورہ افعال بوس کنار،چھونا ،دیکھنا وغیرہ چوں کہ زنا کے مقدمات ہیں اور زناکےلیے اسباب کا درجہ رکھتے ہیں اس لیے مبالغۃً اور مجازاً انہیں بھی زنا کہہ دیا جاتا ہے؛ تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان افعال اور حرکات کی شدید کراہت بیٹھ جائے اور گناہ کا راستہ بھی بند ہو جائے اور ہر فرد اس سے بچنے کی کوشش کرے، وگر نہ حقیقتًا زنا تو یہی ہے اپنی بیوی کے علاوہ کسی عورت سے بدکاری (یعنی مرد کی شرم گاہ کا لڑکی کی شرم گاہ میں داخل ہونا) میں مبتلا ہو جائے۔ بہرحال نکاح سے پہلے مذکورہ افعال بھی کبیرہ گناہ ہیں، ان سے توبہ لازم ہے۔ حدیث شریف میں بدنگاہی کو آنکھ کا زنا اور چھونے کو ہاتھ کا زنا قرار دیا گیا ہے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة، فزنا العين النظر، وزنا اللسان المنطق، والنفس تمنى وتشتهي، والفرج يصدق ذلك، ويكذبه متفق عليه. وفي رواية لمسلم قال: كتب على ابن آدم نصيبه من الزنا مدرك ذلك لا محالة، العينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى، ويصدق ذلك الفرج، ويكذبه
فزنا العين) بالإفراد؛ لإرادة الجنس، وفي نسخة بالتثنية (النظر) أي: حظها النظر على قصد الشهوة فيما لا يحل له، وقد ورد النظر سهم مسموم من سهام إبليس؛ لأن النظر قد يجر إلى الزنا فتسمية مقدمة الزنا بالزنا مبالغة، أو إطلاق للمسبب على السبب."
(کتاب الایمان ،باب الایمان بالقدر، ج:1،ص:158،ط:دار الفکر )
فتاوی شامی میں ہے:
"والزنا الموجب للحد (وطء) وهو إدخال قدر حشفة من ذكر (مكلف) خرج الصبي والمعتوه (ناطق) خرج وطء الأخرس، فلا حد عليه مطلقا للشبهة. وأما الأعمى فيحد للزنا بالإقرار لا بالبرهان شرح وهبانية (طائع في قبل مشتهاة) حالا أو ماضيا خرج المكره والدبر ونحو الصغيرة (خال عن ملكه) أي ملك الواطئ (وشبهته) أي في المحل لا في الفعل، ذكره ابن الكمال؛ وزاد الكمال (في دار الإسلام) لأنه لا حد بالزنا في دار الحرب (أو تمكينه من ذلك) بأن استلقىفقعدت على ذكره فإنهما يحدان لوجود التمكين (أو تمكينها) فإن فعلها ليس وطئا بل تمكين فتم التعريف، وزاد في المحيط."
(کتاب الحدود، ص:6،ج:4،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102521
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن