بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جس کی تمام کمائی حرام ہو اس کو کوئی چیز بیچنا


سوال

 اگر خریدار کی کمائی مکمل حرام ہے، تو اس کے ہاتھوں چیز بیچنا کیسا ہے؟یہ شرعاً جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر خریدار کی کمائی ہوئی رقم حرام ہے اور وہ مال خریدتے وقت دکاندار کو یہ کہہ کر رقم دیتا ہے کہ یہ حرام رقم ہے، تو اس کے عوض میں مال فروخت کرنا جائز نہیں، اور اگر رقم ادا کرتے وقت حرام رقم کہہ کر نہیں دیتا، بلکہ خاموشی سے رقم ادا کردیتا ہے، تو اس صورت میں  دکاندار وغیرہ کےلئے  چیز بیچنا  جائز ہے اور آمدنی بھی حلال ہے، البتہ خریدار حرام رقم دینے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔

السنن الکبری میں ہے:

" عن شرحبيل مولى الأنصار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقةً، وهو يعلم أنها سرقة، فقد أشرك في عارها، وإثمها".

(کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ج: 5، ص: 548۔ ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج: 5، ص: 99، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"(قوله: اکتسب حراماً الخ) توضیح المسألة ما في التتارخانیة حیث قال: رجل اکتسب مالاً من حرام ثم اشتری فهذا علی خمسة أوجه، إما إن دفع تلك الدراهم إلی البائع أولاً ثم اشتری منه بها أو اشتری قبل الدفع بها ودفعها، أو اشتری قبل الدفع بها ودفع غیرها، أو اشتری مطلقاً ودفع تلك الدراهم، أو اشتری بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم، قال أبونصر: یطیب له ولایجب علیه أن یتصدق إلا في الوجه الأول … وقال الکرخي في الوجه الأول والثاني لایطیب، وفي الثلاث الأخیرة یطیب، وقال أبوبکر: لایطیب في الکل.  لکن الفتوی الآن علی قول الکرخی دفعاً للحرج عن الناس". 

(مطلب إذا اکتسب حراما ثم اشتری فهو علی خمسة أوجه، ج: 4، ص: 244، ط:سعید)

الفقه الإسلامي وأدلتهمیں ہے:

"يجوز أخذ المسلم دينه على كافر، من ثمن خمر، أو خنزير، لصحة بيعهما من الكافر لغيره؛ لأنهما مال متقوم في حقه، بخلاف الدين على مسلم، لا يصح أخذه من ثمن خمر أو خنزير، لعدم صحة البيع، لكن أجاز أبو حنيفة خلافاً لصاحبيه أن يوكل المسلم ذمياً في بيع الخمر.وكذلك لا يجوز استيفاء الدين من كسب حرام كالمرابي والمرتشي والغصب والسارق والمغنية."

(بيع العنب للخمار، ج: 4، ص: 233، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307102226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں