بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس خاتون کا محرم صاحبِ استطاعت نہ ہو، نہ ہی اس کے پاس محرم کے اخراجات ہوں تو اس پر حج فرض ہے یا نہیں؟


سوال

 میں گورنمنٹ لیکچرار ہوں،ایک غریب گھرانےمیں شادی ہوئی، شوہر کی جاب نہیں ، میرے بینک میں میری کچھ رقم موجود ہے، کیا میرے اوپر حج فرض ہے کہ میں اپنی رقم سے شوہر کا زاد راہ دے کر حج کروں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ حج کے ایام میں یا جن ایام میں حج درخواستیں وصول کی جاتی ہیں، اتنے پیسے ہوں جو کہ ان کے آنے جانے کے اخراجات کے لیے کافی ہوں اور دیگر تمام ضروریات سے فاضل ہوں، نیز سائلہ کےساتھ حج پر ان کا کوئی محرم بھی جانے والا ہو، اور اگر وہ محرم صاحبِ استطاعت نہ ہو تو سائلہ کے پاس اس کے آنے جانے اور وہاں رہنے کے اخراجات بھی موجود ہوں تو سائلہ پر  حج کی ادائیگی  لازم ہے۔

تاہم اگر حج کے اپنے اخراجات ( آنے،جانے اور وہاں رہنے) کےلیے سائلہ کے پاس اتنی رقم موجود ہے جو کہ تمام ضروریات سے زائد ہے، لیکن سائلہ کامحرم (شوہر یا بھائی، باپ وغیرہ)  صاحبِ استطاعت نہیں ہے اور سائلہ کے پاس بھی ان کے آنے جانے اور وہاں رہنے کے اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں ہے، تو سائلہ پر حج  کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما تفسير الزاد، والراحلة فهو أن يملك من المال مقدار ما يبلغه إلى مكة ذاهبا، وجائيا راكبا لا ماشيا بنفقة وسط لا إسراف فيها، ولا تقتير فاضلا عن مسكنه، وخادمه، وفرسه، وسلاحه، وثيابه، وأثاثه، ونفقة عياله، وخدمه، وكسوتهم، وقضاء ديونه. وروي عن أبي يوسف أنه قال: ونفقة شهر بعد انصرافه أيضا، وروى الحسن عن أبي حنيفة أنه فسر الراحلة فقال: إذا كان عنده ما يفضل عما ذكرنا ما يكتري به شق محمل، أو زاملة، أو رأس راحلة، وينفق ذاهبا، وجائيا، فعليه الحج، وإن لم يكفه ذلك إلا أن يمشي أو يكتري عقبة، فليس عليه الحج ماشيا، ولا راكبا عقبة، وإنما اعتبرنا الفضل على ما ذكرنا من الحوائج؛ لأنها من الحوائج اللازمة التي لا بد منها فكان المستحق بها ملحقا بالعدم، وما ذكره بعض أصحابنا في تقدير نفقة العيال سنة، والبعض شهرا، فليس بتقدير لازم بل هو على حسب اختلاف المسافة في القرب، والبعد؛ لأن قدر النفقة يختلف باختلاف المسافة فيعتبر في ذلك قدر ما يذهب، ويعود إلى منزله."

(ص:١٢٢،ج:٢،کتاب الحج، فصل فی شرائط فرضية الحج، ط: دار الكتب العلمية)

الفتاوي الهنديةمیں ہے:

"وتجب عليها النفقة والراحلة في مالها للمحرم ليحج بها، وعند وجود المحرم كان عليها أن تحج حجة الإسلام، وإن لم يأذن لها زوجها، وفي النافلة لا تخرج بغير إذن الزوج، وإن لم يكن لها محرم لا يجب عليها أن تتزوج للحج كذا في فتاوى قاضي خان."

(ص:٢١٩،ج:١،کتاب الحج، الباب الأول، ط: دار الفكر،بيروت)

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

"(و) مع (زوج أو محرم) ولو عبدا أو ذميا أو برضاع (بالغ) قيد لهما كما في النهر بحثا (عاقل والمراهق كبالغ) جوهرة (غير مجوسي ولا فاسق) لعدم حفظهما (مع) وجوب النفقة لمحرمها (عليها) لأنه محبوس (عليها).

(قوله مع وجوب النفقة إلخ) أي فيشترط أن تكون قادرة على نفقتها ونفقته ... (قوله لأنه محبوس عليها) أي حبس نفسه لأجلها ومن حبس نفسه لغيره فنفقته عليه."

(ص:١٨٧،ج:٢،کتاب الحج،ط: ایج ایم سعید)

امداد الفتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’اگر روپے کی مقدار اتنی ہے کہ صرف اس عورت کے حج کو کافی ہوجاوے تب تو حج فرض ہی نہیں، اور اگر دو شخصوں کے لائق خرچ ہے تو نفسِ وجوب تو اس پر ہوگیاہے، وجوبِ ادا نہیں ہوا؛ بوجہ محرم نہ ہونے کے،اس لیے اس کو اجنبی کے ساتھ سفر کرناتو جائز نہیں، لیکن روپیہ محفوظ رکھے کہ شاید کوئی محرم میسر ہوجاوے، اور اگر  اخیر عمر تک میسر نہ ہو تو وصیت کرجاوے کہ مرنے کے بعد اس کی طرف سے حج بدل کرادیاجائے۔‘‘

(ص:١٨٧،جلد دوم،کتاب الحج، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں