ایک شخص (زید) نے دوسرے شخص (عمر) کیلئے بجلی کا میٹر لگادیا ہے ،اب (عمر) کو یہ شبہ ہے کہ (زید) کے مال میں سود کی رقم شامل ہے، اس وجہ سے عمر نے صدقہ دےدیا ،تاکہ اگر میٹر لگانے میں سود کے پیسے شامل ہوں، تو یہ اس کے بدلہ میں ہوجائے گا ، تو ایسا کرنا (عمر ) کےلئے ازروئے شریعت کیسا ہے؟
واضح رہے کہ کسی کے بارے میں بلا دلیل بدگمانی کرنا جائز نہیں ہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، جب تک کسی مسلمان کے مال کے بارے میں یہ یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ اس کا مال حرام ہے ،تب تک محض شک وشبہ کی بناپر اس کے مال کو حرام سمجھنا درست نہیں، چنانچہ ایسے شخص کے ہدایا وغیرہ قبول کرنا جائز ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے عمرکیلئے قانونی طور پر بجلی کا میٹر لگوادیا تھا،اوراپنی طرف سے تبرع اور احسان کے طور پر اس کی فیس اوراخراجات اداکردیے تھے تو زید کے مال میں محض شبہ کی بنا پر عمر کا اس کی طرف سے کیے گئے احسان کے بدلے میں صدقہ دینا لازم نہیں تھا۔
صحیح البخاری میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها:أن قوما قالوا: يا رسول الله، إن قوما يأتوننا باللحم، ولا ندري أذكروا اسم الله عليه أم لا؟. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سموا الله عليه وكلوه."
(كتاب البيوع، باب: من لم ير الوساوس ونحوها من المشبهات، ج:2، ص:726، ط:دار ابن كثير)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل اشترى من التاجر شيئا هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام قالوا ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام."
(كتاب البيوع، الباب العشرون في البياعات المكروهة والأرباح الفاسدة، ج:3، ص:208، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411102347
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن