بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس کرنسی پر مضاربت کا معاملہ ہوا ہے کیا سرمایہ دار مضارب سے اُس کے علاوہ کسی اور کرنسی کا مطالبہ کرسکتا ہے؟


سوال

احمد اور زید نے کاروبار کیا، جس میں احمد نے سر مایہ یعنی پاکستانی روپیہ لگایا اور زید نے محنت کر کے مال کی خرید وفروخت کی، دونوں کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ  جو منافع آئیں گے وہ دونوں میں برابر تقسیم ہوں گے، کاروبار 2015ء میں شروع ہوا، 2018ء میں ختم ہوا اور 2018ء میں منافع کی تعیین ہوگئی کہ اتنا نفع زید کا بنتا ہے اور اتنا احمد کا، لیکن  زید نے احمد کو یک مشت اُس کے حصے کی نفع کی رقم ادا نہیں کی، بلکہ وہ تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرتا رہا، یہاں تک کہ 2019ء سے اب تک تین لاکھ روپے زید کے ذمہ باقی رہ گئے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ جو تین لاکھ روپے زید کے ذمہ احمد کے باقی رہتے ہیں، کیا احمد زید سے یہ رقم ڈالر یا سونے کی صورت میں وصول کر نے کامطالبہ کرسکتاہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب معاملہ پاکستانی روپیہ پر ہواتھا تو اب زید کے ذمہ احمد کو پاکستانی تین لاکھ روپے ہی دینا لازم ہے، ڈالر یا سونا ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر  فریقین باہمی رضامندی سے ادائیگی کے وقت تین  لاکھ روپے مالیت کے بقدر  ڈالر یا سونے  کی صورت میں ادا کرنے پر متفق ہوجائیں  تو شرعًا ایسا کرنا جائز ہے۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟

(الجواب) : نعم ولا ينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمدا من مجمع الفتاوى."

(كتاب البيوع، باب القرض، 279/2، ط: دار المعرفة)

وفیہ ایضًا:

"(سئل) فيما إذا اشترى زيد من عمرو بضائع معلومة بثمن معلوم من الدراهم معاملة البلدة التي وقع فيها عقد البيع وتسلم زيد المبيع ولم يدفع الدراهم حتى تغيرت ونقص قيمتها إلا أنها رائجة في التجارات فهل على المشتري رد مثلها؟

(الجواب) : حيث نقص قيمتها قبل نقد الثمن وهي رائجة في التجارات فعلى زيد المشتري رد مثلها لعمرو البائع كما في الجوهرة وقاضي خان والخلاصة والبزازية اشترى شيئا بدراهم نقد البلد فلم ينقده حتى تغير الثمن إن كانت لا تروج في السوق فسد البيع وإن كانت تروج لكن انتقص لا ينتقض البيع وليس للبائع إلا ذلك خلاصة وبزازية ..... لأنها إذا غلت أو رخصت كان عليه رد المثل بالاتفاق."

(كتاب البيوع، باب الصرف، 280/2، ط: دار المعرفة)

وفیہ ایضًا:

"ولكن قد تكرر في زماننا ورود الأمر السلطاني بتنقيص سعر بعض النقود الرائجة فإذا كان عقد البيع أو القرض وقع على نوع معين منها كالريال الفرنجي مثلا فلا شبهة في أن الواجب دفع مثل ما وقع عليه البيع أو القرض."

(كتاب البيوع، باب الصرف، 281/2، ط: دار المعرفة)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"ولأن ‌الديون ‌تقضى ‌بأمثالها."

(الكتاب الحادي عشر في الوكالة، الباب الثاني في بيان شروط الوكالة، المادة: 1459، 526/3، ط: دار الجيل)

 کتاب الاصل لمحمد بن الحسن الشیبانی میں ہے:

"وإذا مات المضارب ومال المضاربة في يديه، وعليه دين...وكذلك لو كان الذي  في يديه دنانير والمضاربة دراهم باع الوصي الدنانير، فأعطى رب المال رأس ماله وحصته من الربح، وقسم حصة المضارب بين غرمائه، فإن أراد رب المال أن يأخذ من الدنانير بقدر رأس ماله وحصته من الربح فأعطاه الوصي فذلك جائز."

 (‌‌كتاب المضاربة،‌‌ باب إقرار المضارب بالمضاربة في الصحة والمرض، 4/ 281، ط: دار ابن حزم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں