بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس کا کوئی دنیا میں رشتہ دار نہ ہو،کیااس کے لیےترکِ دنیا جائز ہے؟


سوال

کچھ لوگ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کی عبادت میں مگن ہونے کے لیے دنیا سے بالکل بے تعلق ہو جاتے ہیں جنگلات میں گوشہ نشین ہو جاتے ہیں یا پھر مسلسل لمبے سفر پر رہتے ہیں،اپنی زندگی کا مقصد سفر،عبادت ہی بنا لیتے ہیں ،سفر میں ہی رہتے ہیں اکثر ،اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں، اور اللہ سے لو لگانے کا کہتے رہتے ہیں، چلے کاٹتے ہیں۔

1)سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگ جن کے اہل و عیال اوررشتہ دار ہوں، وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس طرح  کر سکتے ہیں؟

2)اور اگر ایسا شخص جس کے نہ اہل و عیال ہوں، نہ ہی کوئی رشتہ دار ہوں، دنیا میں ان کا کوئی بھی ہم سفر نہ ہو، کیا ان لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ اس طرح اپنی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اللہ کی عبادت میں مشغول ہونا بنا کر دنیا سے بیگانہ رہ سکتے ہیں؟

جواب

1)  واضح رہے کہ انسان مدنی الطبع ہے ،لوگوں کے درمیان رہنا سہنا اور لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنا اس کافطری تقاضہ ہے ،اسی لیےاسلام نےانسان کے فطری مزاج کوملحوظ رکھتے ہوئے ،ایسے احکامات،حقوق و ذمہ داریاں انسان پر عائد کی ہیں ،جس کو نبھا کر انسان دنیا میں رہ کر ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل میں ممدو معاون قرار پاتا ہے ،دنیا  میں ایک اچھا انسان  کہلانے کے ساتھ ساتھ  آخرت میں اجرِ جزیل کا مستحق قرار پاتا ہے ،اسی لیے اسلام نےرہبانیت کو ترک کرنے کی ترغیب دی ہے ،اور ایک مسلمان کو شادی (نکاح ) کی ترغیب دی ہے ،نبی کریم ﷺ  نے نکاح کے ایسے  فضائل  بیان  فرمائے ہیں ،جن سے نکاح کے دنیاوی اور اخروی فوائد وثمرات کا پتا چلتاہے۔

الف)حدیث شریف میں آتا ہے کہ "حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نےارشاد فرمایا:چار چیزیں انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سنت میں سے ہیں:حیاء ،خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح‘‘۔

دوسری روایت میں ہے :

ابن ابی نجیح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا کہ: مسکین ہے، مسکین ہے وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ بہت مال والا ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ بہت مال والا ہو، پھر فرمایا: مسکین ہے، مسکین ہے وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو، لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ بہت مالدار ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ مال والی ہو‘‘۔

ج)’’اے جوانو!تمہیں نکاح کرلیناچاہیے، کیونکہ یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والا اور شرم گاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والا ہے،اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے‘‘۔  

د)آپ نے فرمایا’’جو شخص نکاح کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود نکاح نہ کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے(یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)‘‘۔    

یہ سب نکاح کے فضائل و فوائد ہیں ،اور اس کے ساتھ دسیوں قسم کے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کے حقوق متعلق کر دیے ،جس کی ادائیگی انسان پر لازم وضروری قرار دی گئی ،ان سب ذمہ داریوں کی بجاآوری  کےساتھ اپنی رضاجوئی اور خوشی کو متعلق کر دیا ،اور ان حقوق و فرائض کو فراموش کر تے ہوئےترک دنیا اور رہبانیت اختیار کرتے ہوئے دنیا سے لاتعلق ہو جانا  اور جنگلوں  کی طرف  نکل  کر رہبانیت اختیار کرنے کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے ۔

2)اسلام میں رہبانیت  نہیں  بلکہ تقوی مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی تمام صغائر و کبائر سے بچے، پھر ان تمام قبائح کو ترک کرنے کے لئے ، اور اوصاف حمیدہ حاصل کرنے کے لئے اگر وقتی طور پر بعض مباحات مثلاً لوگوں سے اختلاط وغیرہ کو بطور علاج ترک کردے، اور اس ترک کی پابندی اس وقت تک کرے جب تک یہ رذائل دور نہ ہو جائیں، اور نفس پر کنٹرول نہ ہوجائے تو اس کی اجازت ہے۔ 

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی دیوبندیؒ معارف القرآن میں رہبانیت  سے متعلق   لکھتے ہیں :

"صحیح بات یہ ہے کہ رہبانیت کا عام اطلاق ترکِ  لذات و ترکِ مباحات کے لیے ہوتا ہے ،اس کے چند درجے ہیں  :

پہلا درجہ: یہ کہ کسی مباح و حلال چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے ،یہ تو دین کی تحریف و تغیر ہے،اس معنی کے اعتبار سے  ترکِ دنیایارہبانیت قطعاً حرام ہے اور آیت قرآن" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا"اور اس کی امثال میں اسی کی ممانعت و حرمت کا بیان ہے ، اس آیت کا عنوان " لَا تُحَرِّمُوْا" خود یہ بتلا رہا ہے کہ اس کی ممانعت اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے رہا ہے جو احکام الٰہیہ میں تبدیل و تحریف کے مترادف ہے ۔

دوسرا درجہ:یہ ہے کہ مباح کے کرنے کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار نہیں دیتا،مگر کسی دنیوی یا دینی ضرورت کی وجہ سے اس کو چھوڑنے کی پابندی کرتا ہے ، دنیوی ضرورت جیسے کسی بیماری کے خطرہ سے کسی مباح چیز سے پرہیز کرے اور دینی ضرورت یہ کہ یہ محسوس کرے کہ میں نے اس مباح کو اختیار کیا تو انجام کار میں کسی گناہ میں مبتلا ہو جاؤں گا ، جیسے جھوٹ ، غیبت وغیرہ سے بچنے کے لئے کوئی آدمی لوگوں سے اختلاط ہی چھوڑ دے،یا کسی نفسانی رذیلہ کے علاج کے لئے چند روز بعض مباحات کو ترک کر دے اور اس ترک کی پابندی بطور علاج و دوا کے اس وقت تک کرے جب تک یہ رذیلہ دور نہ ہو جائے ، جیسے صوفیائے کرام مبتدی کو کم کھانے ، کم سونے ، کم اختلاط کی تاکید کرتے ہیں کہ یہ ایک مجاہدہ ہوتا ہے نفس کو اعتدال پر لانے کا جب نفس پر قابو ہو جاتا ہے کہ ناجائز تک پہنچنے کا خطرہ نہ رہے تو یہ پرہیز چھوڑ دیا جاتا ہے ، یہ درحقیقت ترکِ دنیا یا  رہبانیت نہیں ، تقویٰ ہے جو مطلوب فی الدین اور اسلاف کرام صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے ثابت ہے ۔
تیسرا درجہ :یہ ہے کہ کسی مباح کو حرام تو قرار نہیں دیتا مگر اس کا استعمال جس طرح سنت سے ثابت ہے اس طرح کے استعمال کو بھی چھوڑنا، ثواب اور افضل جان کر اس سے پرہیز کرتا ہے ، یہ ایک قسم کا غلو ہے، جس سے احادیث کثیرہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور جس حدیث میں لا رھبانیة فی الا سلام آیا ہے ” یعنی اسلام میں رہبانیت نہیں “ اس سے مراد ایسا ہی ترک مباحات ہے کہ ان کے ترک کو افضل و ثواب سمجھے۔"

(معارف القرآن،تفسیر سورۃ الحدید،ج:8،ص:329،ط:مکتبۃ المعارف)

4)اسی طرح  یہ بھی ملحوظ  خاطر رہے کہ   علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  مسلمان کے لیے افضل و بہتر یہ ہے کہ وہ لوگوں میں گھل مل جائے،اور  مختلف اجتماعات میں شرکت کرے،  بیماروں کی عیادت کرے،  جنازوں میں شرکت کرے،محتاجوں کی  مدد کرے، جاہلوں کی رہنمائی کرے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ   لوگوں کا آپس میں مل جل کر رہنا  اسی وجہ سے محبوب وپسندیدہ  ہے کہ خود  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور ہدایت یافتہ لوگ دنیا میں  لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہے،اوردنیا کوہی اپنے رہن سہن کے لیے منتخب کیا ، خلفائے راشدین اور ان کے بعد صحابہ و تابعین اور ان کے بعد مسلم علماء اور  بہترین لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے  درجِ  ذیل فرامین   پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں ہی رہ کر اللہ کو راضی کیا اور لوگوں کے  ساتھ رہن سہن کو اپنایا ۔

(1)ارشاد باری تعالیٰ ہے " {وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪}{اور نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو}

(2){كُنْتُمْ  خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ } {تم بہترین امت تھے  لوگوں کے لیے نیکی کا حکم دینے والےاور برائی سے منع کرنے والے }

(3) "اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ."{یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف آرا ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک مضبوط عمارت ہیں} اور اس کا فرمان، سلامتی اور برکت ہے۔   

نیز(1) آپ ﷺکا ارشاد ہے" العبادة في الهرج كهجرة إلي" افراتفری(یعنی لوگوں کے درمیان رہ کر)  عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کے مترادف ہے ۔

(2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  مزید ارشاد فرمایا: ''المؤمن الذي يخالط الناس ويصبر على أذاهم أعظم أجرا من الذي لا يخالطهم ولا يصبر على أذاهم ."مومن جو لوگوں کے ساتھ گھل مل جائے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرے، اس کے لیے اجر و ثواب  ایسے شخص سے  زیادہ ہے۔ جو ان کے ساتھ نہ گھلتا ہے اور ان کے نقصان پر صبر نہیں کرتا ہے۔"

 مذکورہ  تمہیداور اسلاف کےطرز ِ زندگی کا خلاصہ یہی ہے کہ ترکِ دنیا اور رھبانیت نہ ہی مطلوب ہے اور نہ ہی اسلام میں جائز ہے ،بلکہ اختلاط مع الناس اور لوگوں میں گھل مل کر رہنا ہی اسلام اور انسانیت کا مزاج ہے ،جو کہ مومن سے مطلوب  اور اسلام کا   مقصودہے ۔

مذکورہ تفصیلی تمہید کے بعد جوابات ملاحظہ ہوں :

1) صورتِ مسئولہ میں مذکورہ طریقے پر چلہ کشی کرنا یا سالہا سال سفر پر رہنا ،عبادت یا وعظ ونصیحت میں مشغول رہنا ، اوراس میں  مبالغہ کرناجائز نہیں ،بالخصوص جب بیوی بچوں ،اور والدین اوررشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی  بھی  ذمہ میں واجب ہو،تو ایسی صورت میں  ضروری ہے کہ   حقوق العباد کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اعتدال کے ساتھ حقوق اللہ کی ادائیگی کی جاۓ،اور اس میں اللہ کی رضااور خوشنودی  حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

2)جن لوگوں کا دنیا میں کوئی نہیں،تو ان کے لیے سائل کے ذکرکردہ طریقے کے مطابق دنیا بالکل ترک  کر کے رہبانیت اختیار کرنا جائز نہیں ہے ،بلکہ ایسے افراد  کو  لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے اور ان میں جو نکاح کی اوربیوی بچوں کے نان  ونفقہ کی ادائیگی کی قدرت رکھتے ہیں،ان پر لازم ہے کہ  نکاح جیسی سنت کو اپنائیں،جس کے دنیاوی اور اخروی بےشمار فائدے ہیں۔    

خلاصہ یہی ہے کہ ترکِ دنیا اور رہبانیت نہ ہی مطلوب ہے اور نہ ہی اسلام میں جائز ہے ،بلکہ اختلاط مع الناس اور لوگوں میں گھل مل کر رہنا ہی اسلام اور انسانیت کا مزاج ہے ،جو کہ مومن سے مطلوب  اور اسلام کا   مقصودہے ۔

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے :

"‌‌ التعريف:

1 - الرهبانية لغة: من الرهبة، وهي الخوف والفزع مع تحرز واضطراب، ومنها الراهب: وهو المتعبد في صومعة من النصارى يتخلى عن أشغال الدنيا وملاذها زاهدا فيها معتزلا أهلها، والجمع: رهبان۔۔۔۔

وفیہ ایضا:

"‌‌الحكم التكليفي:

4 - نهت الشريعة عن الرهبانية - بمعناها الذي كان يمارسه رهبان النصارى - وهو الغلو في العبادات، والتخلي عن أشغال الدنيا وترك ملاذها، واعتزال النساء، والفرار من مخالطة الناس، ولزوم الصوامع والديارات أو التعبد في الغيران والكهوف، والسياحة في الأرض على غير هدى بلحوقهم بالبراري والجبال، وحمل أنفسهم على المشقات في الامتناع من المطعم والمشرب والملبس والمنكح، وتعذيب النفس بالأعمال التعبدية الشاقة كأن يخصي نفسه أو يضع سلسلة في عنقه.

ودليل ذلك قوله تعالى: {قل يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم غير الحق ولا تتبعوا أهواء قوم قد ضلوا من قبل وأضلوا كثيرا وضلوا عن سواء السبيل} (1) .

وقول النبي صلى الله عليه وسلم: عليك بالجهاد، فإنه رهبانية الإسلام (2) . وقوله صلى الله عليه وسلم: ولن يشاد الدين أحد إلا غلبه (3) . وقوله صلى الله عليه وسلم: من رغب عن سنتي فليس مني۔۔۔۔۔."

وفیہ ایضا:

"واتفق العلماء على أن الأفضل للمسلم أن يختلط بالناس، ويحضر جماعاتهم ومشاهد الخير ومجالس العلم، وأن يعود مريضهم، ويحضر جنائزهم، ويواسي محتاجهم، ويرشد جاهلهم، ويأمر بالمعروف وينهى عن المنكر، ويدعو للخير، وينشر الحق والفضيلة، ويجاهد في سبيل الله لإعلاء كلمة الله، وإعزاز دينه مع قمع نفسه عن إيذاء المسلمين والصبر على أذاهم.

قال النووي: إن الاختلاط بالناس على هذا الوجه هو المختار الذي كان عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وسائر الأنبياء صلوات الله وسلامه عليهم، وكذلك الخلفاء الراشدون، ومن بعدهم من الصحابة والتابعين، ومن بعدهم من علماء المسلمين وأخيارهم لقوله تعالى {وتعاونوا على البر والتقوى} (2) وقوله تعالى: {كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر} (3) وقوله تعالى: {إن الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا كأنهم بنيان مرصوص}وقوله صلى الله عليه وسلم: العبادة في الهرج كهجرة إلي (1) وقوله صلى الله عليه وسلم المؤمن الذي يخالط الناس ويصبر على أذاهم أعظم أجرا من الذي لا يخالطهم ولا يصبر على أذاهم ."

(رهبانية ،ج:23،ص:175 ،ط:دارالسلاسل)

ترمذی شریف میں ہے :

"عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الزهادة في الدنيا ليست ‌بتحريم ‌الحلال ولا إضاعة المال ولكن الزهادة في الدنيا أن لا تكون بما في يديك أوثق مما في يد الله وأن تكون في ثواب المصيبة إذا أنت أصبت بها أرغب فيها لو أنها أبقيت لك»: " هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه."

(‌‌باب ما جاء في الزهادة في الدنيا،ج:4،ص:571 ،ط:شركة مكتبة مطبعة مصطفي الباني)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وعن أبي ذر عن النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - قال: " الزهادة ") : بفتح الزاي أي: ترك الرغبة في الدنيا (" ليست ‌بتحريم ‌الحلال ") : كما يفعله بعض الجهال زعما منهم أن هذا من الكمال، فيمتنع من أكل اللحم أو الحلواء والفواكه ولبس الثوب الجديد ومن التزوج ونحو ذلك، وقد قال تعالى: {ياأيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين} [المائدة: 87] وقد ثبت أنه - صلى الله تعالى عليه وسلم - فعل هذه الأفعال ولا أكمل من حاله الكمال."

(باب التوكل والصبر،ج:8،ص:3322  ،ط:دارالفكر)

وفيه ايضا:

"وعن زيد بن الحسين، قال: سمعت مالكا وسئل أي شيء الزهد في الدنيا؟ قال: طيب الكسب وقصر الأمل. رواه البيهقي في (شعب الإيمان) .

5283 - (وعن زيد بن الحسين) : لم يذكره المؤلف في أسمائه لكونه من رواة مالك، وهو وشيخه ليسا من الصحابة والتابعين (قال: سمعت مالكا وسئل) أي: والحال أنه سئل (أي شيء الزهد في الدنيا؟ قال: طيب الكسب) أي: المكسوب من المأكول والمشروب بأن يكون حلالا طيبا يورث علما نافعا وعملا صالحا ; لأنه قال تعالى للرسول: {كلوا من الطيبات واعملوا صالحا} [المؤمنون: 51] وقال: {ياأيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم واشكروا لله إن كنتم إياه تعبدون} [البقرة: 172] (وقصر الأمل) أي: بكثرة العمل مخافة إتيان الأجل المزهد في الدنيا المرغب في العقبى. قال الطيبي - رحمه الله -: فإن قلت: أي مدخل لطيب الكسب في الزهد؟ قلت: هذا رد على من زعم أن الزهد في مجرد ترك الدنيا ولبس الخشن وأكل الجشب، أي: ليس حقيقة الزهد ما زعمته، بل حقيقته أن تأكل الحلال، وتلبس الحلال، وتقنع بالكفاف، وتقصر الأمل، ونحوه قوله - صلى الله تعالى عليه وسلم -: " «الزهادة في الدنيا ليست ‌بتحريم ‌الحلال ولا بإضاعة المال، ولكن الزهادة في الدنيا بأن لا تكون بما في يديك أوثق بما في أيدي الناس» " انتهى."

(باب الأمل والحرص،ج:8،ص:3305،ط:دارالفكر)

مشکاۃ شریف میں ہے :

"وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " «يا عبد الله ألم أخبر أنك تصوم النهار وتقوم الليل؟ " فقلت: بلى يا رسول الله، قال: " فلا تفعل ; صم وأفطر، وقم ونم، فإن لجسدك ‌عليك ‌حقا، وإن لعينك ‌عليك ‌حقا، وإن لزوجك ‌عليك ‌حقا، وإن لزورك ‌عليك ‌حقا، لا صام من صام الدهر، صوم ثلاثة أيام من كل شهر صوم الدهر كله، صم كل شهر ثلاثة أيام، واقرأ القرآن في كل شهر " قلت: إني أطيق أكثر من ذلك، قال: " صم أفضل الصوم، صوم داود صيام يوم وإفطار يوم، واقرأ في كل سبع ليال مرة، ولا تزد على ذلك» " متفق عليه."

وفي شرحه (في المرقاة)

"وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " يا عبد الله ۔۔۔ (قال: " فلا تفعل ") فإنه مضر لك لأنهما يؤديان إلى ضعف البدن المفضي إلى ترك بعض العبادات الضرورية، ولو في آخر الأمر من العمر " صم " وقت النشاط وهو لا يكون إلا في بعض الأيام، أو وقت طغيان النفس لتنكر صورتها " وأفطر " وقت السآمة والملالة وجمود النفس وكسر شهواتها، صم أيام الفواصل لإدراك الفضائل، وأفطر في غيرها لتقوية البدن وتحسين الأخلاق الشمائل " وقم " أول الليل وآخره " ونم " ما بينهما واسمع نصيحة الطبيب الحبيب من غير معرفة العلة، فكيف وقد بينها لقوله " فإن لجسدك عليك حقا " بمحافظة الأكل والشرب، والقيام والنيام لأنه يحصل بصيام الأيام وقيام الليالي على وجه الدوام انحلال للقوى، واختلال للبدن عن النظام، فلا يجوز لك إضاعته بتفريطه وإضراره بإفراطه، بحيث تعجز عن أداء العبادات وقضاء الحقوق في الحالات، والحاصل اعتدل في الأمور كلها " وإن لعينك " قيل: لباصرتك، وقيل:۔۔۔" وإن لزوجك " أي لامرأتك " عليك حقا " أي من الاستمتاع فيفوت بالصيام والقيام الاضطجاع والانتفاع " وإن لزورك " ۔۔۔ " عليك حقا " أي وتعجز بالصيام والقيام عن حسن معاشرتهم والقيام بخدمتهم ومجالستهم۔۔۔۔ وقال ليس عليكم في الدين من حرج وقال - صلى الله عليه وسلم -: " «عليكم بالملة الحنيفية السمحاء» " وروي: " «عليكم بدين العجائز ولا تشددوا فيشدد الله عليكم» "، وغير ذلك مما لا يعد ولا يحصى من الأدلة (صوم ثلاثة أيام من كل شهر " مبتدأ خبره (صوم الدهر) لأن الحسنة بعشر أمثالها (كله) أي حكما وهو بالجر تأكيد للدهر (صم) أي أنت بالخصوص ومن هو في المعنى مثلك وبهذا يندفع توهم التكرار المستفاد مما قبله (كل شهر) منصوب بنزع الخافض أي من كل شهر (ثلاثة أيام) ظرف، قيل: هي أيام البيض (واقرأ القرآن) أي جميعه (في كل شهر) أي مرة (قلت: إني أطيق أكثر من ذلك) أي مما ذكر من صيام الثلاثة وختم الشهر ( «قال: صم أفضل الصوم صوم داود» )۔۔۔ (صيام يوم وإفطار يوم) ۔۔۔ (واقرأ) القرآن (في كل سبع ليال مرة) أي مرة من الختم، وفي اختيار الليالي على الأيام إشارة إلى أفضليتها للقراءة (ولا تزد على ذلك) أي على المذكور من الصوم والختم أو لا تزد على ذلك من السؤال ودعوى زيادة الطاقة (متفق عليه)."

(باب صيام التطوع،ج:4،ص:1419 ،ط:دارالفكر)

احیاء العلوم الدین میں ہے:

"فانظر الى فوائد المخالطة والدواعي اليها ما هي وهي التعليم والتعلم والنفع والانتفاع والتأديب والتأدب والاستيناس والإيناس ونيل الثواب وإنالته في القيام بالحقوق واعتياد التواضع واستفادة التجارب من مشاهدة الأحوال والاعتبار بها۔۔

فلنفصل ذلك فإنها من فوائد المخالطة وهي سبع۔۔

الفائدة الأولى :

التعليم والتعلم.....

الفائدة الثانية:

النفع والإنتفاع أما الإنتفاع بالناس فبالكسب والمعاملةوذلك لا يتأتى إلا بالمخالطة والمحتاج إليه مضطر الى ترك العزلة فيقع في جهاد من المخالطة أن طلب موافقة الشرع فيه...

الفائدة الثالثة التأديب والتأدب :

ونعني به الارتياض بمقاساة الناس والمجاهدة في تحمل أذاهم كسرا للنفس وقهرا للشهوات

وهي من الفوائد التي تستفاد بالمخالطة وهي أفضل من العزلة في حق من لم تتهذب أخلاقه ولم تذعن لحدود الشرع شهواته ولهذا انتدب خدام الصوفية في الرباطات فيخالطون الناس بخدمتهم وأهل السوق للسؤال منهم كبرا لرعونة النفس واستمدادا من بركة دعاء الصوفية المنصرفين بهممهم الى الله سبحانه...

الفائدة الرابعة الاستئناس والإيناس:

وهو غرض من يحضر الولائم والدعوات ومواضع المعاشرة والأنس وهذا يرجع الى حظ النفس في الحال وقد يكون ذلك على وجه حرام بمؤانسة من لا تجوز مؤانسته أو على وجه مباحوقد يستحب ذلك الأمر الدين وذلك فيمن تستأنس بمشاهدة أحواله وأقواله في الدين كالأنس بالمشايخ الملازمين لسمت التقوى.....

الفائدة الخامسة في نيل الثواب وإنالته:

أما النيل فبحضور الجنائز وعيادة المريض وحضور العيدين وأما حضور الجمعة فلا بد منه وحضور الجماعة في سائر الصلوات أيضا لا رخصة في تركه إلا لخوف ضرر ظاهر يقاوم ما يفوت من فضيلة الجماعة ويزيد عليه وذلك لا يتفق إلا نادراوكذلك في حضور الإملاكات والدعوات ثواب من حيث إنه إدخال سرور على قلب مسلم...

الفائدة السادسة من المخالطة التواضع:

فإنه من أفضل المقامات ولا يقدر عليه في الوحدة وقد يكون الكبر سببا في اختيار العزلة...

الفائدة السابعة التجارب:

فإنها تستفاد من المخالطة للخلق ومجاري أحوالهم والعقل الغريزي ليس كافيا في تفهم مصالح الدين والدنيا وإنما تفيدها التجربة والممارسة ولا خير في عزلة من لم تحنكه التجارب فالصبي إذا اعتزل بقي غمرا جاهلا بل ينبغي أن يشتغل بالتعلم ويحصل له في مدة التعلم ما يحتاج إليه من التجارب ويكفيه ذلك ويحصل بقية التجارب بسماع الأحوال ولا يحتاج الى المخالطة."

(كتاب آداب العزلة ،ج:2،ص:236۔۔۔241 ،ط:دارالمعرفة)

احیاء العلوم الدین میں ہے :

"فلنذكر أولا فوائد العزلة وهي تنقسم الى فوائد دينية ودنيوية....

والدينية تنقسم إلى ما يمكن من تحصيل الطاعات في الخلوة والمواظبة على العبادة والفكر ‌وتربية ‌العلم وإلى تخلص من ارتكاب المناهي التي يتعرض الإنسان لها بالمخالطة كالرياء والغيبة والسكوت عن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر ومسارقة الطبع من الأخلاق الرديئة والأعمال الخبيثة من جلساء السوء...

الفائدة الأولى :

التفرغ للعبادة والفكر والإستئناس بمناجاة الله تعالى عن مناجاة الخلق والإشتغال باستكشاف أسرار الله تعالى في أمر الدنيا والآخرة وملكوت السموات والأرض فإن ذلك يستدعي فراغا ولا فراغ مع المخالطة فالعزلة وسيلة اليه،۔۔۔

الفائدة الثانية :

التخلص بالعزلة عن المعاصي التي يتعرض الإنسان لها غالبا بالمخالطة ويسلم منها في الخلوة وهي أربعة الغيبة والنميمة والرياء والسكوت عن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر ومسارقة الطبع من الأخلاق الرديئة والأعمال الخبيثة التي يوجبها الحرص على الدنيا...

الفائدة الثالثة:

الخلاص من الفتن والخصومات وصيانة الدين والنفس عن الخوض فيها والتعرض لأخطارها وقلما تخلو البلاد عن تعصبات وفتن وخصومات فالمعتزل عنهم في سلامة منها...

الفائدة الرابعة:

الخلاص من شر الناس لمعاداته ونصب المكيدة عليه وتدسيس غائلة وراءه فالناس مهما اشتد حرصهم على أمر {يحسبون كل صيحة عليهم هم العدو فاحذرهم} وقد اشتد حرصهم على الدنيا فلا يظنون بغيرهم إلا الحرص عليها...

الفائدة الخامسة :

أن ينقطع طمع الناس عنك وينقطع طمعك عن الناس...

الفائدة السادسة :

الخلاص من مشاهدة الثقلاء والحمقى ومقاساة حمقهم وأخلاقهم، فإن رؤية الثقيل هي العمى الأصغر."

(كتاب آداب العزلة ،ج:2،ص:226۔۔236 ،ط:دارالمعرفة)

شرح فقہ الاکبر میں ہے :

"وفراسة رياضية وهي التي تحصل بالجوع والسهر والتخلي فان النفس إذا تجردت عن العوائق والعلائق بالخلائق صارلها من الفراسة والكشف بحسب تجردها ."

(لعلي القاري ،ص:80 ،ما يطهر من الخوارق علي ايدي بعض الكفرة)

التفسیر المظھری میں ہے :

"قال الشيخ الاجل امامنا وقبلتنا يعقوب الكرخي رض ان من أول السورة الى هذه الاية اشارة الى مقامات السلوك من الخلوة بالليل والاشتغال بالقران وذكر الرحمن ونفى ما سواه والتوكل به ثم أشار الى أعلى مقامات السلوك وهو ابصر على جفاء الأعداء."

(تفسير سورة المزمل :9،ج:10 ،ص:111 ،ط:رشيدية)

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال:

میرا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے، چوں کہ میرے گھروالوں میں سے کسی نے بھی تبلیغ میں وقت نہیں لگایا ہے، اس  لیے وہ کہتے ہیں کہ گھر کی دیکھ بھال اور بال بچوں کا پیٹ بھرو، یہ بھی عبادت ہے، گھر میں چھ افراد کھانے والے ہیں، اور آپ صرف کمانے والے ہیں، اگر آپ تبلیغ میں جائیں گے تو گھر کے افراد کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ کیا ان کا یہ کہنا صحیح ہے؟

جواب:

تبلیغ میں جانا نہایت ضروری ہے، کیوں کہ اس سے آدمی کی اِصلاح ہوتی ہے، لیکن شریعت نے بال بچوں کی بھی ذمہ داری رکھی ہے، ان کے اخراجات کا بندوبست کرکے پھر جائیں، اگر تبلیغ میں جانے سے ان کے اخراجات کا بندوبست نہیں ہوتا تو فی الحال گھر سے باہر نہ جائیں اور درس میں شامل ہوتے رہیں۔ فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    کتبہ

محمد عبدالسلام چاٹ گامی                                                                                                                                      محمد شاہد امین (22/01/1414)‘‘

دوسرے فتوے میں ہے:

’’یہ شخص اگر ضروریاتِ دین کا علم حاصل کرچکا ہے اور مزید چار ماہ سے کم تبلیغ میں جانا چاہتا ہے تو بیوی سے اخلاقًا اجازت لے لے، اور اگر چار ماہ سے زائد کا ارادہ ہے تو بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے، اور دونوں صورتوں میں ایامِ تبلیغ کے نان و نفقہ وغیرہ کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح                                                                                                                                                                      کتبہ

محمد عبد السلام چاٹ گامی                                                                    ابوبکر سعید الرحمٰن (17/06/1413)‘‘

فتاویٰ فریدیہ میں ہے :

"صوفیاء کرام کے چلہ کشی  کے جواز میں کوئی شک وشبہ نہیں :

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض مشائخ چالیس دن تک چلہ کشی کرتے ہیں ،کیا یہ چلہ کشی جائز ہے ؟اس کا کوئی ثبوت ہے ؟

الجواب :اگر چلہ سے مقصود خلوت میں عبادت ہو ،اور یہ مقصد ہو کہ  چالیس دن جو لگاتار عبادت کی جاتی ہے ،وہ نفس میں راسخ ہو جاتی ہے ،اور یہ چلہ طیبات کے تحریمِ عملی سے  خالی ہو،تو اس کے جواز میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔"

(کتاب التصوف والسلوک ،ج:1،ص:366 ،ط:دارالاشاعت)

خطبات حکیم الامت میں ہے :

"مگر  آجکل جہلاء  اس قسم کی درویشی کو دلیل ترحم اور بزرگی خیال کرتے ہیں ،جس کی خدا کے یہاں کچھ بھی قدر نہیں چنانچہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص چلہ کھینچ رہا ہے اور چلے میں گوشت سے پرہیز ہے۔ سبحان اللہ۔ بس وہ عورتوں کا چلہ ہوگا جس کو زچگی کہتے ہیں شرعی چلہ ہرگز نہیں کیونکہ شرعی چلہ میں گناہوں کے سوا کسی چیز کا پرہیز نہیں ہوا کرتا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قبل نبوت کچھ ایام کے لیے غار حرا میں بغرض خلوت تشریف لے جانا ثابت ہے مگر آپ نے کبھی گوشت سے پرہیز نہیں کیا پھر یہ کیسی بزرگی ہے کہ چلے کی وجہ سے لوگ ایک ایک مہینہ تک گوشت چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ حدیث میں ہے " سید الطعام اللحم۔" 

خطبات حکیم الامت ،ج:9 ،کاپی ۔29،ص:449،ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

وفیہ ایضا: 

"ترکِ دنیا کی نفی :

لیکن اس میں دنیا کے چھوڑنے اور بیوی بچوں سے منہ موڑنے کی ضرورت نہیں اور اسی سے لوگوں کو توحش ہوا ہے ،اور اسی سے اس کو دین سے علیحدہ سمجھا ہے ،ایسا نہیں بلکہ اسی عیش وراحت کی حالت میں طریق طے ہو سکتا ہے ۔"

(ج:7،ص:103 ،ط:ادارۃ تالیفات اشرفیہ)

القاموس المحیط میں ہے:

"الراھب:نصرانی،گرجاکا مذہبی رہنماوہ تارک الدنیا نصرانی جو عبادت کے لیے اپنی کٹی یا خانقاہ میں یکسو ہوکررہے،ج:رھبان".

(القاموس المحيط،باب الراء،مادہ:رہب،ص:675،ط:اداہ اسلامیہ لاہور كراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں