بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس جم میں گانے بجتے ہوں وہاں جانے کا حکم


سوال

 میں جم (ورزش گاہ) جاتا ہوں اپنے جسم کی سستی دور کرنے، جسم کو تھوڑا مضبوط بنانے کے لیے اور پیٹ کی چربی ختم کرنے کے لیے، 2 مہینے سے جا رہا ہوں۔ جم میں بہت تیز گانے لگے ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ اس لیے لگائے جاتے ہیں کہ اس سے نوجوانوں میں جوش و جذبہ بڑھ جاتا ہے اور وہ اور محنت کرتے ہیں جم میں وزن اٹھانے پر۔ میں بھی جانتا ہوں کہ موسیقی سخت گناہ اور حرام ہے۔ میرا جم جانے کا مقصد میں آپ کو بتا چکا ہوں، اب میں وہاں لگے موسیقی گانے وغیرہ میں شامل ہوتا ہوں، لیکن میں موسیقی کی طرف نا دیہان لگاتا ہوں نا ہی کان۔ اب میرے بارے میں آپ کیا مشورہ دیتے ہیں کیا کروں؟ گانے وہ صرف میری وجہ سے بند بھی نہیں کر سکتے!

جواب

سائل کو چاہیے  کہ ورزش کے لیے کوئی دوسری جگہ تلاش کرے؛ کیوں کہ جس طرح قصداً خود گانے  بجا کر سننا ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح ایسی مقامات پر جانا جہاں پہلے سے علم ہو کہ گانے بجتے ہیں جائز نہیں ہے اور چاہت نہ ہونے کے باوجود اور گانے کی طرف توجہ نہ ہونے کے باوجود منکرات کی مجلس میں شرکت کا گناہ سائل کو ہوگا؛ لہذا اس ورزش گاہ کو ترک کر کے کسی دوسری جگہ کا انتخاب کیجیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن علم أولًا) باللعب (لايحضر أصلًا) سواء كان ممن يقتدى به أو لا لأن حق الدعوة إنما يلزمه بعد الحضور لا قبله ابن كمال. وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر قال ابن مسعودصوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه»."

(کتاب الحظر و الاباحۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۴۸،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (كل لهو) لقوله عليه الصلاة والسلام: «كل لهو المسلم حرام إلا ثلاثة ملاعبته أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته بقوسه» .

 قوله وكره كل لهو) أي كل لعب وعبث فالثلاثة بمعنى واحد كما في شرح التأويلات والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعه كالرقص والسخرية والتصفيق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنها كلها مكروهة لأنها زي الكفار، واستماع ضرب الدف والمزمار وغير ذلك حرام وإن سمع بغتة يكون معذورًا ويجب أن يجتهد أن لايسمع، قهستاني."

(کتاب الحظر و الاباحہ ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۹۵، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں