بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس ہوٹل میں شراب کے برتن دھونے پڑتے ہوں اس میں نوکری کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم


سوال

1۔ میں جس ہوٹل میں کام کرتا ہوں وہاں شراب والے برتن بھی آجاتے ہیں تو ان کو دھونا جائز ہے یاناجائز؟ 2۔اوراگر ایسے ہوٹل میں نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی یانہیں؟ 

جواب

1۔واضح رہے کہ مسلمان کے لیے شراب کے برتن دھوناجائز نہیں ہے، صورتِ مسئولہ میں سائل کوچاہیے کہ مالک سے بات کرکے مذکورہ ناجائز کام سے استثناء حاصل کرے اور اگر مالک اس کےلئے تیار نہ ہو تو اپنے لیے پہلے کوئی جائز ملازمت دیکھے ، جب جائز ملازمت مل جائے تو پھر مذکورہ ہوٹل میں کام چھوڑ کر وہ جائز ملازمت اختیار کرے۔

2۔نماز کی جملہ شرائط میں سے ایک شرط جگہ کاپاک ہوناہے، لہٰذااگر مذکورہ ہوٹل میں کسی پاک جگہ  نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ) يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل."

(سورة المائدۃ، 12/2، ط: دار الطیبة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وإذا استأجر رجل من أهل الذمة مسلماً يضرب لهم الناقوس فإنه لا يجوز لما ذكرنا."

(کتاب الإجارۃ، فصل فیمایجوز من الاجارۃ ومالایجوز، 482/7، ط: دارالکتب العلمیة)

الموسوعۃالفقهيۃالكويتيۃ میں ہے:

"اتفقوا على أنه لا يجوز للمسلم أن يؤجر نفسه للكافر لعمل لا يجوز له فعله كعصر الخمر ورعي الخنازير وما أشبه ذلك."

(حرف الخاء،خدمة الكافر للمسلم، 19 /45۔46، ط: دارالسلاسل۔بیروت)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"آپ کی اصل آمدنی تو جائز تھی،لیکن اب آپ کو اپنی جائز ملازمت میں کچھ ایسا کام بھی کرنا پڑتا ہےجس کی شرعًا اجازت نہیں، جائز کام کے مقابلہ میں اگر دوسرا کام کم ہے تو اپنی ملازمت ترک نہ کریں، اگر جائز کام کم ہو  اور دوسرا کام زائد ہوتب بھی فورًا ملازمت ترک نہ کریں، مبادا کہ پریشانی کاسامناہو جوقابلِ برداشت نہ ہو، البتہ دوسری جائز  کسبِ معاش تلاش کرتے رہیں،جب وہ میسر آجائےتب اس موجودہ ملازمت کو ترک کردیں، استغفار بہر حال کرتے رہیں۔"

(کتاب الاجارۃ، باب الاستئجار علی المعاصی، 120/17، ط: ادارہ الفاروق)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"تطهير النجاسة من بدن المصلي وثوبه والمكان الذي يصلي عليه واجب."

(كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة، الفصل الأول في الطهارة وستر العورة، 58/1، ط: رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں