بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس گھر سے خرچہ چلتا ہو اس کو فروخت کردینے کی صورت میں اس کی زکات کا حکم


سوال

ہم نے گھر خریدا تھا،اس سے ہمارے گھر کا خرچہ چلتا تھا،اب وہ گھر ہم نے  ڈھائی مہینے پہلے بیچ دیا ہے،اب اس کی زکات دینا فرض ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر گھر مشترکہ  تھا تو اس کے  بیچنے کے بعد  جس کے حصے میں جو رقم آئی ہے تو اس پر زکات   سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ جو پہلے سے صاحب نصاب ہو تو دیگر مال کی زکات ادا کرتے وقت اگر مذکورہ رقم  موجود ہو تو اس کی زکات بھی ادا کرنا لازم ہوگی، اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو،لیکن اگر پہلے سےصاحب نصاب نہیں  تو ایسی صورت میں اگر ہر ایک کے حصے میں آنے والی رقم نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے تو زکات ادا کرنا لازم ہوگی، ورنہ نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و لو اشترى ‌قدورًا ‌من ‌صفر يمسكها و يؤاجرها لاتجب فيها الزكاة كما لاتجب في بيوت الغلة ..."

 (كتاب الزكاة ،مسائل شتى في الزكاة1/ 180،ط:رشیدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها ‌كون ‌النصاب ناميًا) حقيقة بالتوالد و التناسل و التجارة أو تقديرًا ..."

(كتاب الزكاة ،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،1/ 174،ط:رشيدية)

الدر المختار میں ہے:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصيرللتجارة بلا نية صريحًا ..."

(كتاب الزكاة،2/ 267۔ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية...."

(كتاب الزكاة ،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،1/ 175،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں