بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس گاؤں میں پہلے جمعہ ہورہا ہو وہاں اب ظہر پڑھیں یا جمہ کی نماز؟


سوال

میرا تعلق مکران کے چھوٹے سے  گاؤں "ہنودی دشت"  سے ہے ،پچھلے 40 سالوں سے گاؤں  کی مسجد میں نمازِ جمعہ پابندی سے پڑھائی جارہی ہے،گاؤں کی آبادی 50 یا 60 گھرانوں پر مشتمل تھی، لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر گئے ،اب گاؤں میں صرف بارہ تیرہ  گھر  رہ گئے،جس کی وجہ سے دواشخاص نے اعتراض اٹھایا کہ آبادی کم ہونے کی وجہ سے مسجد میں نماز جمعہ ادا نہیں کی جاسکتی ،جب کہ گاؤں کے لوگ اسی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنا چاہتے ہیں،اس پر فتویٰ کی رشنی میں  آپ کی راہ نمائی درکار ہے کہ کیا مذکورہ مسجد میں نمازِ جمعہ اداکی جاسکتی ہے یانہیں؟

جواب

 جس بستی کی آبادی ڈھائی سے تین  ہزار افراد سے کم ہے اور ضروریات زندگی( تھانہ،  ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی ) میسر نہ ہوں ،اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا صحیح نہیں۔ ایسے گاؤں میں جمعہ کےدن ظہرکی نماز پڑھی جائے گی، لیکن اگر وہاں کافی عرصہ سے جمعہ پڑھا جارہا ہو اور جمعہ بند کرنے کی صورت میں فتنہ و فساد اور انتشار کاخوف ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کو فقہی مسئلہ سے مطلع کرکے جمعہ بند کرنے کی کوشش کی جائے، اگر اس کے باوجود فتنہ کا اندیشہ ہو تو جمعہ پڑھنے دیا جائےاور امام کے پیچھے جمعہ کی نماز ادا کریں، اپنی ظہر کی نماز نہ پڑھیں۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"قریہ صغیرہ میں جمعہ جائز نہیں ،قریہ کبیرہ میں جائزہے،قریہ اور شہر کی تعریف  میں عرف سے تغیر  ہوتا رہتاہے اس لیے کہ ماہیت کی تعریف تو مقصود نہیں ہے،آثار وعلامات  کے اعتبار سے تعریف کی جاتی ہے جس سے دونوں میں فی الجملہ امتیاز قائم ہو جائے آثار وعلامات کا تغیر یہی ہے، مثلًا  جس جگہ  جمعہ کی اجازت  ہو  اس کے متعلق اس طرح  علامات بتائی جائیں  کہ وہا ں گلی کوچے ہوں ،محلے ہوں،ڈاک خانہ، ہسپتال ہو  ۔۔۔کم وبیش ڈھائی ہزار کی آبادی ہو۔"

(کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ الجمة،فصل في اشتراط المصر للجمعة،ج:8،ص:65۔66،ط:ادارۃ الفاروق)

           کفایت المفتی میں ہے:

"اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتن و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں"۔

 (کتاب الصلاۃ، پانچواں باب ۳/ ۱۸۷ ط: دارالاشاعت) 

            فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القستاني: تقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات". 

(كتاب الصلاة، باب الجمعة ج:2،ص: 138، ط:سعيد) 

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"سوال : دو گاؤں کے درمیان ایک کوس کا فاصلہ ہے اور پہلے گاؤں کی آبادی تین ہزار کی ہے اور دوسرے گاؤں میں تین مسجدیں ہیں اور جمعہ ہوتا ہے۔ پہلے گاؤں اور دوسرے گاؤں میں جمعہ فرض ہے یا نہیں؟

جواب : پہلا گاؤں بڑا ہے، اس میں جمعہ فرض ہے اور دوسرا گاؤں بھی اگر ایسا ہی بڑا ہے تو وہاں بھی فرض ہے۔"

(کتاب الصلاۃ ،ج:5 ،ص:107،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں