بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس گاؤں میں عید کی نماز نہ ہوتی ہو، وہاں طلوع فجر کے بعد قربانی کا حکم


سوال

اگر کسی گاؤں میں عید کی نماز نہ ہوتی ہو، تو کیا اس گاؤں میں طلوع فجر کے بعد قربانی کرنا جائز ہے؟اور اس گاؤں سے کتنی مسافت پر عید کی نماز ہوتی ہو، تو اس گاؤں میں عید کی نماز  سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں؟

جواب

جس گاؤں اور دیہات میں عید کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے، وہاں  دس ذو الحجہ کی طلوع فجر کے بعد قربانی کرنا جائزہے، اگر چہ اس گاؤں  میں عید کی نماز جائز نہ ہونے کے باوجود لوگ عید کی نماز پڑھنے کہیں جاتے ہوں، یا اس گاؤں کے متصل کوئی ایسی آبادی ہو جہاں عید کی نماز پڑھنا  جائز ہو اور وہاں کی عید کی نماز پڑھنے کا معمول بھی ہو، تب بھی اس گاؤں (جہاں عید کی نماز پڑھنا درست نہیں)  میں طلوع فجر کے بعد قربانی کرنا جائز ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وأول وقتها) (‌بعد ‌الصلاة ‌إن ‌ذبح ‌في ‌مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة لكن بعدها أحب وبعد مضي وقتها لو لم يصلوا لعذر، ويجوز في الغد وبعده قبل الصلاة لأن الصلاة في الغد تقع قضاء لا أداء زيلعي وغيره (وبعد طلوع فجر يوم النحر إن ذبح في غيره) .

(قوله إن ذبح في ‌غيره) أي غير المصر شامل لأهل البوادي، وقد قال قاضي خان: فأما أهل السواد والقرى والرباطات عندنا يجوز لهم التضحية بعد طلوع الفجر، وأما أهل البوادي لا يضحون إلا بعد صلاة أقرب الأئمة إليهم اهـ وعزاه القهستاني إلى النظم ‌وغيره وذكر في الشرنبلالية أنه مخالف لما في التبيين ولإطلاق شيخ الإسلام ."

(كتاب الأضحية، ج:6، ص:318، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں