بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جس گاؤں کی آبادی تین ہزار ہو وہاں جمعہ کا حکم


سوال

 ( 1 ) :۔ نماز جمعہ کے بارے میں فقہاۓ کرام فرماتے ہیں ، کہ جہاں ضروریات زندگی موجود ہوں ، اس گاؤں میں نماز جمعہ جائز ہے ، اب پوچھنا یہ ہے کہ ، ضروریات زندگی سے کیا مراد ہے ؟ امثلہ کے ساتھ وضاحت مطلوب ہے ، نیز اگر کسی شئے کی ضر ورت مہینہ میں صرف ایک بار ہوتی ہے ، تو کیا یہ ضرورت میں داخل ہے یا نہیں ؟ ( 2 ) :۔ ہمارے ضلع میں گاؤں ہیں ، جس کی آبادی 5۔6 ہزار سے متجاوز ہوتی ہیں ، اور ایسے گاؤں میں دکانیں بھی 50۔60 کے قریب ہوتی ہیں ، لیکن بازار کی شکل میں نہیں ہوتی ہے ، اسی طرح موچی، نائی ، ترکان کی دکانیں نہیں ہوتی ہیں ، لیکن لوگ یہی کام کرتے ہیں ، ان کا یہی پیشہ نہیں ہوتا ، اب پوچھنا یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لئے دکانیں بازار کی شکل میں ہو، متصل ہو ، شرط لازم ہے ؟ اس طرح پیشہ ور افراد کی دکانیں اور ان کا پیشہ نہ ہو نا نماز جمعہ کے لئے کیا حکم رکھتا ہے ؟ ( 3 ) ہمارے ضلع میں بعض ایسے گاؤں ہیں ، جن کی آبادی 20 ہزار سے زیادہ ہے ، اور بہت عرصہ سے وہاں نماز جمعہ ہوتی ہے ، لیکن ابھی تک ایسے بڑے گاؤں میں نہ پولیس چوکی یا تھانہ ہے ، اور نہ ہی قاضی یا قاضی کا نائب موجود ہے ، جن کی طرف لوگ رجوع کریں ، تو مذکورہ گاؤں میں نماز جمعہ کا کیا حکم ہے ؟ نیز پولیس تھانہ اور قاضی یا نائب قاضی کا کیا وجود ضروری ہے ،ور نہ جمعہ کی نماز درست نہ ہو گی ؟ مذکورہ بالا مسائل کی قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں جواب دے کر مطلع فرمائیں ۔ 

جواب

۱۔واضح رہے کہ ضروریات زندگی سے مراد یہ ہے جن چیزوں کی ضرورت عام طور پر پڑتی ہے چاہے وہ ضروت روزانہ پڑتی ہو یا مہینہ میں ایک بار  مثلا : بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں، اس گاؤں میں ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی مقرر ہو ۔

۲۔ واضح رہے کہ جمعہ یا عیدین کی نماز قائم کرنے کے لیے مصر یا فناء مصر کا ہونایا ایسے بڑے گاؤں کا ہونا ضروری ہے کہ جس کی مجموعی آبادی کم از کم دو ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہو اقامت جمعہ کے لیے دیگر ضروریات کے مقابلے میں فقہاء کرام نے زیادہ اعتبار آبادی کا کیا ہے لہذا اگر کسی گاؤں کی آبادی کم از کم دوڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہو اس میں ضروریات زندگی کا سامان مل جاتا ہو اگر چہ ڈاک خانہ وغیرہ  دیگر چیزیں نہ بھی ہوں تب بھی ایسی جگہ جمعہ و عیدین کی نماز قائم کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب اور فرض ہے ۔

۳۔مذكوره گاؤں میں بھی چونکہ جمعہ کی شرائط پائی جارہی ہیں اس لیے اس گاؤں میں بھی جمعہ کی نماز قائم کرنا جائز ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.......أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصليبهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.

وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.

وأما تفسير توابع المصر فقد اختلفوا فيها روي عن أبي يوسف أن المعتبر فيه سماع النداء إن كان موضعا يسمع فيه النداء من المصر فهو من توابع المصر وإلا فلا......وروى ابن سماعة عن أبي يوسف كل قرية متصلة بربض المصر فهي من توابعه وإن لم تكن متصلة بالربض فليست من توابع المصر، وقال بعضهم: ما كان خارجا عن عمران المصر فليس من توابعه، وقال بعضهم: المعتبر فيه قدر ميل وهو ثلاثة فراسخ، وقال بعضهم: إن كان قدر ميل أو ميلين فهو من توابع المصر وإلا فلا، وبعضهم قدره بستة أميال، ومالك قدره بثلاثة أميال، وعن أبي يوسف أنها تجب في ثلاثة فراسخ، وعن الحسن البصري أنها تجب في أربعة فراسخ، وقال بعضهم: إن أمكنه أن يحضر الجمعة ويبيت بأهله من غير تكلف تجب عليه الجمعة وإلا فلا وهذا حسن"

(کتاب الصلوۃ ، فصل بیان شرائط الجمعة جلد ۱ ص :۲۶۰ ط : دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق.......وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات "

(کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ الجمعة جلد ۲ ص : ۱۳۸ ط : دارالفکر)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"محققین کی تحقیق یہ ہے کہ جو قریہ مثل چھوٹے قصبہ کے ہو مثلاً تین چار ہزار آدمی اس میں آباد ہوں وہ قریہ کبیرہ ہے اور جو اس سے کم ہو وہ چھوٹا ہے۔"

(کتاب الصلوۃ جلد ۱ ص:۲۹۴ ط:دارالاشاعت)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے: 

"سوال :موضع سوجڑو  وضلع مظفر نگر میں تقریبا تین ہزار مردم شماری یا کچھ کم ہے اور بازار اس موضع میں نہیں ہے اور کوئی سودا وغیرہ یا دوا بھی نہیں ملتی اور موضع کو شہر سے فصل کوس سوا کوس کا ہے ایسے دیہات میں جمعہ جائز ہے یا نہیں ۔

الجواب: شامی میں تصریح کی ہے کہ قصبہ اور بڑے قریہ میں جمعہ صحیح ہے عبارت اس کی یہ ہے تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرةالخ پس قریہ مذکورہ بظاہر قریہ کبیرہ کہ آبادی اس کی تین ہزار کے قریب ہے ، لہذا جمعہ پڑھنا اس میں واجب ہے اور صحیح ہے۔"

(کتاب الصلوۃ ، الباب الخامس عشر : فی صلوۃ الجمعۃ جلد ۵  ص:۶۲ ط: دار الاشاعت)

وفیہ ایضا:

"سوال:موضع رلبدھنہ میں دوہزار آٹھ سو آبادی ہے اور یہاں پر پیٹھ لگتی ہے یعنی کل چیزیں تو فروخت نہیں ہوتی ہاں نمک مرچ ترکاری بکتی ہے ۔سولہ دکانیں نمک مرچ گڑ چاول والوں کی کہیں آباد ہیں ایک جگہ پر بازار کی شکل میں نہیں ، چار مسجدیں اس جگہ ہیں اور دو مسجدوں میں جمعہ ہوتا ہے ۔ اب فرمائیے کہ یہ قصبہ کا حکم رکھتا ہے یا گاؤں کا ؟

الجواب:آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ موضع رلبدھنہ میں قریب تین ہزار آدمیوں کے آباد ہیں ، بندہ کے خیال میں وہ بڑا قریہ ہے اور شامی میں لکھا کہ بڑے قریہ میں جمعہ واجب الاداءہوتا ہے ۔ عبارت اس کی یہ ہے"وتقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق الخ" اگر چہ موضع مذکور میں بازار نہیں ہے مگر باعتبار آبادی کے اس کو ملحق بالقصبہ کرسکتے ہیں ۔"

(کتاب الصلوۃ ، الباب الخامس عشر: فی صلوۃ الجمعۃ جلد ۵ ص:۱۲۸ ، ۱۲۹ ط: دارالاشاعت)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311100843

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں