بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس دیہات میں جمعہ واجب نہیں ہے وہاں معتکف جمعہ کے لیے نہ نکلے


سوال

معتکف ایسی مسجد میں ہے جہاں جمعہ نہیں ہوتا اور جس جامع مسجد میں جمعہ ہوتا ہے وہاں شرعی اعتبار سے جمعہ صحیح نہیں ہوتا کیوں کہ دیہات ہے، اب معتکف اسی مسجد میں ظہر کی نماز پڑھے یا جمعہ کی نماز پڑھنے جائے؟

جواب

اگر  معتکف نے ایسی مسجد میں اعتکاف کیا ہے جہاں جمعہ نہیں ہوتا اور قریب جس مسجد میں جمعہ ادا کیا جاتا ہے وہاں دیہات ہونے کی وجہ سے جمعہ کی شرط نہیں پائی جاتی، تو اگر مذکورہ معتکف خود کسی گاوں یا بستی وغیرہ میں ہے جہاں اس پر جمعہ واجب نہیں ہے تو وہ اپنے اعتکاف والی مسجد ہی میں ظہر کی نماز  ادا کرے، اگر جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد سے نکلا تو اس کا اعتکاف فاسد ہو جائے گا اور اگر وہ شہر یا بڑے قصبہ وغیرہ میں ہے جہاں اس پر جمعہ فرض ہے تو اس پر لازم ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے باہر نکلے ،اور ایسی قریبی مسجد میں جائے جہا ں جمعہ کی شرائط  پائی جاتی ہوں  اور جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر واپس آ جائے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لا يخرج المعتكف من معتكفه في الاعتكاف الواجب ليلا ولا ونهارا إلا لما لا بد له منه من الغائط والبول وحضور الجمعة؛ لأن الاعتكاف لما كان لبثا وإقامة؛ فالخروج يضاده ولا بقاء للشيء مع ما يضاده فكان إبطالا له وإبطال العبادة حرام؛ لقوله تعالى {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33] إلا أنا جوزنا له الخروج لحاجة الإنسان إذ لا بد منها وتعذر قضاؤها في المسجد فدعت الضرورة إلى الخروج... وكذا في الخروج في الجمعة ضرورة؛ لأنها فرض عين ولا يمكن إقامتها في كل مسجد فيحتاج إلى الخروج إليها كما يحتاج إلى الخروج لحاجة الإنسان؛ فلم يكن الخروج إليها مبطلا لاعتكافه وهذا عندنا.

وقال الشافعي: إذا خرج إلى الجمعة؛ بطل اعتكافه".

(كتاب الاعتكاف، فصل:وأما ركن الاعتكاف2/ 114، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها".

(كتاب الصلاة، فصل :وأما بيان شرائط الجمعة، 1/ 259)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں