بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس فلم میں فرشتوں کو انسانی شکل میں دکھایا گیا ہو اس فلم کا دیکھنا


سوال

کورین ڈراما  دیکھ رہا ہوں، جس میں انسان فرشتہ کا کردار ادا کر رہا ہے  انسان کی شکل میں، الحمد للہ! فرشتوں کے بارے میں میرا عقیدہ درست ہے، اور ڈراما  دیکھ کر بھی عقیدہ خراب نہیں ہو گا، میں جانتا ہوں کہ انبیاء یا صحابہ کے بارے میں فلم دیکھنا حرام ہے، لیکن فرشتوں کا تصور صرف اسلام میں نہیں، بلکہ ہر مذہب و قوم میں ہے اور اس ڈرامے  میں مذہب کی توہین کا کوئی پہلو نہیں، صرف ایک لکھاری نے کہانی لکھی، جس پر ڈراما بنا، سوال یہ ہے کہ کیا ڈراما  میں فرشتوں کو  بھی انسانی شکل میں دکھانا یا دیکھنا حرام ہے؟

جواب

ڈراموں اور فلموں کے دیکھنے کے  ناجائز ہونے  کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس میں جاندار کی تصاویر ہوتی ہیں اور جاندار کی تصاویر بنانا اور دیکھنا سب گناہ میں داخل ہے، نیز عام طور پر  یہ پروگرام  موسیقی،  ناچ گانے اور  بد نگاہی کے اسباب سے  بھی خالی نہیں ہوتے، لہذا اس قسم کے پروگراموں کا دیکھنا   جائز نہیں۔

اب اگر کسی فلم/ ڈرامے  میں فرشتوں کو انسانی شکل میں پیش کیا گیا ہو تو اُس میں بھی چوں کہ  جاندار کی تصویر کشی کی گئی ہے اور یہ  مستقل وجہِ حرمت ہے، خواہ کسی مذہب کی توہین مقصود نہ بھی ہو؛ لہذا  اس قسم کی فلم/ ڈرامے  کا دیکھنا بھی جائز نہیں  ہو گا۔

الدر المختار میں ہے:

"قلت: وفي البزازية: استماع صوت الملاهي - كضرب قصب، ونحوه - حرام؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها كفر" أي: بالنعمة، فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة، لا شكر، فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لايسمع؛ لما روي أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه، وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره، اهـ أو لتغليظ الذنب، -كما في الاختيار -، أو للاستحلال، - كما في النهاية -".

( الشامية، كتاب الحظر و الإباحة، قبيل فصل في اللبس، ٩/ ٥٠٤، ط: دار عالم الكتب)

البريقة المحمودية في شرح الطريقة المحمدية لبركلي میں ہے:

"قال قاضي خان عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم: (استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها من الكفر، إنما قال عليه الصلاة والسلام ذلك، على وجه التشديد و إن سمع بغتةً فلا إثم عليه، و يجب عليه أن يجتهد كلّ الجهد حتي لايسمع؛ لما روي: أنّ  رسول الله صلي الله عليه وسلم أدخل أصبعيه في أذنه. انتهي".

( الباب الثاني / في الأمور المهمة في الشريعة، ٥ / ٤، ط: دار الكتب العلمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "٤٨١١ - «وَعَنْ نَافِعٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، فَسَمِعَ مِزْمَارًا، فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ وَنَاءَ عَنِ الطَّرِيقِ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ، ثُمَّ قَالَ لِي بَعْدَ أَنْ بَعُدَ: يَا نَافِعُ! هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قُلْتُ: لَا، فَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَسَمِعَ صَوْتَ يَرَاعٍ، فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ. قَالَ نَافِعٌ: فَكُنْتُ إِذْ ذَاكَ صَغِيرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.

وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ: أَمَّا اسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاهِي كَالضَّرْبِ بِالْقَضِيبِ وَنَحْوِ ذَلِكَ حَرَامٌ وَمَعْصِيَةٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: " «اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ، وَالْجُلُوسُ عَلَيْهَا فِسْقٌ، وَالتَّلَذُّذُ بِهَا مِنَ الْكُفْرِ» " إِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ التَّشْدِيدِ وَإِنْ سَمِعَ بَغْتَةً فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَيَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَجْتَهِدَ كُلَّ الْجَهْدِ حَتَّى لَا يَسْمَعَ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِي أُذُنَيْهِ".

( بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، ٧ / ٣٠٢٥)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں