بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس دکان میں جان دار کی تصویر بیچی جاتی ہو اس میں ملازمت کرنا


سوال

 میرے والد صاحب کی کتابوں اور کاپیوں کی دکان ہے جس میں تقریباًکام تو جائز ہے،  البتہ اس میں کچھ ناجائز پہلو بھی ہیں،  مثلا ہمارے ہاں کچھ جاندار چیزوں کی تصاویر بیچی جاتی ہیں اور میں وہاں دکان میں بیٹھتا ہوں،  جس پر مجھے ماہانہ والد صاحب کچھ رقم دیتے ہیں،  تو میرا سوال یہ ہے کیا میری تنخواہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر اس میں ناجائز کا پہلو بھی آتا ہے تو میں اپنی تنخواہ کو کس طرح سے پاک کر سکتا ہوں؟  اس کے علاوہ اگر والد صاحب مجھے کوئی حکم دیتے ہیں دکان میں کام کرنے کا،  اگر وہ میں کام نہ کروں تو میری تنخواہ پر بھی اثر پڑے گا یا صرف والدین کی نافرمانی کا گناہ ملے گا جب کہ میرے والد کو پتہ ہوتا ہے کہ اس نے فلاں کام نہیں کیا پھر بھی مجھے پورے پیسے دے دیتے ہیں؟   برائے مہربانی جواب دیجیے!

جواب

واضح رہے کہ جاندار کی تصاویر  کی خرید و فروخت ناجائز ہے اور ان سے حاصل ہونے والے منافع بھی  حرام  ہیں، اولاً تو اس معاملے پر اپنے والد صاحب سے بات  کیجیے؛ تاکہ تصاویر بیچنا خریدنا بند  کردیں، ثانیاًصورتِ مسئولہ میں والد جو   پیسے سائل کو دے رہے ہیں ،یہ  جیب خرچ  ہی شمار ہوتا  ہے،اس میں  سائل  کو لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے،البتہ جاندار کی تصاویر بیچنے سے اجتناب کرلیا کرے۔

نیز والدین کی اطاعت ہر جائز ومباح کام میں ماننا ضروری ہے، ناجائز شرعاً ممنوع کام میں ان کی اطاعت کرنا  بات مانناجائز  نہیں ہے۔

صحیح مسلم میں ہے :

"حدثنا محمد بن المثنى، وابن بشار ، (واللفظ لابن المثنى)، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن زبيد ، عن سعد بن عبيدة ، عن أبي عبد الرحمن ، عن علي: « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث جيشا ......... وقال للآخرين قولا حسنا، وقال: لا طاعة في معصية الله، ‌إنما ‌الطاعة ‌في ‌المعروف."

(‌‌باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية وتحريمها في المعصيةج:6، ص:15، رقم 1840، ط:دار الطباعة العامرة)

دوسری  حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن ابن عباس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كلّ مصوِّر  في النار يجعل له بكلّ صورة صوّرها نفسًا فيعذبه في جهنم".

 (باب التصاویر: ج: 2، ص: 385،  ط: قدیمي)

فتاوٰی شامی میں  ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیها:ج:1،ص:647، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

" وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى."

(فرع لابأس باتخاذ المسبحة لغیر ریاء: ج:1، ص:650، ط: سعید)

وفیه أیضاً:  

"وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر قال ابن مسعود صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه» وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق  تكره اهـ أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية."

( کتاب الحظر والإباحة، ج:6 ، ص: 348،  ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"وماکان سببًا لمحظور محظور... و نظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها."

( كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:350،  ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه صلى الله عليه وسلم «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :

"الإجارۃ علی المنافع المحرمة کالزنی والنوح والغناء والملاهی محرمة وعقدہا باطل لا یستحق به أجرۃ، ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب له غناءا ونوحًا ، لأنه انتفاع بمحرم. وقال أبو حنیفة : یجوز ، ولا یجوز الاستئجار علی حمل الخمر لمن یشربها ، ولا علی حمل الخنزیر."

(کتاب الإجارۃ، الإجارۃ علی المعاصي، ج:1، ص:290، ط:دار السلاسل)

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

( الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات،ج:5، ص:367،  ط: دارالکتب العلمیه)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات،ج:5، ص:342،  ط: رشیدیه)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط".

 (الباب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات، ج:5، ص:343،  ط: رشیدیه)

کفایت المفتی میں ہے:

"تصویروں کا خریدنا بیچنا ناجائز ہے خواہ  وہ چھوٹی ہوں یا بڑی اور بچوں کے کھیلنے کی ہوں یا اور کسی غرض کے لیے ،البتہ ایسی اشیاءجن میں تصویر کا خریدنا بیچنا مقصود نہ ہو ،جیسے دیا سلائی کے بکس کہ ان پر تصویر بنی ہوتی ہے،مگر تصویر کی بیع و شراءمقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا بیچنا مباح ہو سکتا ہے"۔

(کفایت المفتی ، ج:9، ص: 235 ،  ط:دار الاشاعت کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100736

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں