بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس چیز کی منت مانی جائے اس کا عبادت کی قبیل سے ہونا شرط ہے


سوال

 ہمارے گھر میں جو پتیلا محرم کی نیاز پکانے کے لیے استعمال ہوتا تھا اسی پتیلے میں بعد میں کپڑے بھی دھوتے تھے جیسے کے اس میں کبھی نہ کبھی کوئی ناپاک شلوار بھی آ ہی جاتی ہوگی تو میں نے یہ منت مان لی کہ ہر بار محرم کی نیاز کے لیے 5کلو والا نیا پتیلا لے کر دوں گی جس میں نیاز پکا کرے گی جب کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری والدہ 5کلو کے بجائے کبھی ڈھائی کلو کبھی کبھی 3 کلو چاول بناتی تھی، تومیں نے حساب سے زیادہ بڑے برتن کی منت مان لی ، جس کو میں نے چند سال پورا بھی کیا ، اب میرے مالی حالات ایسے نہیں کہ منت پوری کر سکوں تو مجھ پر اس کا کوئی  کفارہ واجب ہو گا یا اس منت کو ہر حال میں پورا کرنا لازمی ہے ؟ اور اگر اس کو کچھ وقت مؤخر کر کے  جب  میرے مالی حالات بہتر ہو جائیں  تو دوبارہ  پوری کر سکتی ہوں ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی منت کہ " ہر بار محرم کی نیاز کے لیے 5کلو والا نیا پتیلا لے کر دوں گی" شرعًا  سرے سے منعقد ہی نہیں ہوئی، لہٰذا سائلہ کے ذمہ نہ تو اس کا کوئی کفارہ ہے اور نہ ہی اس کا پورا کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ نذر (منت) کے منعقد ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس کام کی منت مانی جارہی ہو وہ عبادت کی قبیل سے ہو، اور محرم کی نیاز کے لیے 5کلو والا نیا پتیلا لے کر دینا یہ عبادت میں داخل نہیں ہے، لہذا  اس کی  منت ماننا بھی صحیح نہیں ہے، بلکہ محرم کی نیاز  اگر ایصالِ ثواب کے لیے ہو تو بھی اسے  لازم سمجھنا  شرعًا درست نہیں ہے، اور اگر غیر اللہ کی نیاز ہو تو اس کا حرام ہونا ظاہر ہے، لہٰذا جتنے عرصے اس پر عمل کیا، اس پر توبہ و استغفار بھی کرنا چاہیے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون قربة مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة ويصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بهما والعتق والبدنة والهدي والاعتكاف ونحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة".

(كتاب النذر، فصل وأما شرائط الركن فأنواع، 82/5، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام.....(قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق، ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك، ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر".

(كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ‌‌فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، 439/2، ط: سعيد)

    فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں