بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جس باربی کیو گرل پر خنزیر یا حرام گوشت پکایا گیا اس کے استعمال کا حکم


سوال

فتوی نمبر 144601100440 پر ایک سوال جس بار بی کیو گرل پر حرام گوشت مثلاً خنزیر کا گوشت پکا براہ کرم اس گرل کو صاف کرنے کا طریقہ بتائیں براہ کرم وضاحت کریں کہ کیا اس گرل پر ہر چیز کو آگ کے ذریعے جلانے سے وہ پاک ہو جائے گا؟ذیل میں مذکورہ فتوی کا سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں:

"سوال: کیا ہم امریکا  جیسے غیر مسلم ملک کے پارکوں میں دستیاب عوامی بی بی کیو گرل استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب: سائل کے سوال کا منشا بظاہر یہ ہے کہ امریکا  جیسا ملک جہاں مسلمان اور غیر مسلم  ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں اور وہ حلال اور حرام ہر قسم کا گوشت کھاتے ہیں، ایسے ملک میں بار بی کیو گرل جس پر حلال و حرام ہر قسم کی چیز پکائی گئی ہوگی اس کا ایک مسلمان کے لیے استعمال جائز یا نہیں؟

اس صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر غالب گمان یہ ہو کہ حرام گوشت مثلاً  خنزیر کا گوشت بھی اس گرل پر رکھ کر پکایا گیا ہوگا تو پھر مسلمانوں کے لیے  ایسی گرل کو پاک کیے بغیر اور گوشت کے اجزاء ہٹائے بغیر  استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔ گرل کو اس طرح دھو لیا جائے کہ  گوشت کے اجزاء اور مصالحہ جات  صاف ہوجائیں۔

اگر سوال کا  منشا  کچھ اور ہے تو وضاحت کر کے سوال دوبارہ ارسال فرمادیں۔ "

جواب

واضح رہے کہ پاکی حاصل کرنے کے اسباب  میں سے  ایک سبب آگ پر پکانا یا آگ سے جلانا بھی ہے ۔نیز آگ پر پکانے یا جلانے سے چیز کے پاک ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ نجاست کی ماہیت بدل جائے یا پھر نجاست کا اثر زائل ہوجائے۔فقہائے کرام نے ماہیت بدلنے اور نجاست کے اثر زائل ہونے کی الگ  الگ فروعات بیان کی ہیں، ذیل میں تمثیل کے لیے چند مذکور ہیں:

۱) آگ سے ماہیت تبدیل ہوجائے مثلا گوبر جل کر مٹی بن جائے تو وہ پاک شمار ہوگی ۔

۲) آگ سے ناپاکی کا اثر زائل ہونا:

الف)  ناپاک مٹی سے کوئی برتن بنایا اور اس کو آگ پر پکالیا جس کی وجہ سے نجاست کا اثر زائل ہوگیا تو وہ پرتن پاک شمار ہوگا۔

ب)   خون میں لت پت بکری کی سری کو آگ پر جلایا جس سے خون زائل ہوگیا تو وہ سری پاک شمار ہوگی اور اس کو اگر پانی میں ڈال کر پکایا جائے گا تو اس کا کھانا حلال ہوگا۔

ج) وہ تندورجس کو عورت نے ناپاک گیلے  کپڑے سے  پونچھا ہو اور اس میں آگ لگائی ہو تو اگر آگ اس ناپاک کپڑے کی تراوت کو زائل کردے تو اس میں  پکی ہوئی روٹی ناپاک نہیں ہوگی۔

د) خنزیر کو اگر تندور میں پکایا گیا تو پھر اس میں دوبارہ آگ لگانے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

ان اصولوں کی روشنی میں سائل کی بیان کردہ صورت میں آگ پر جلنے کی وجہ سے باربی کیو گرل تو پاک ہوجائے گی لیکن اس گرل پر خنزیر یا حرام گوشت کے لگے ہوئے اجزاء (اگر چہ وہ اب جل کر کالے ہوگئے ہوں) جو عموما بار بی کیو کے بعد گرل پر رہ جاتے ہیں وہ تو پاک اور حلال نہیں ہوں گے؛ کیونکہ صرف جل جانے سے گوشت کی ماہیت تبدیل نہیں ہوتی اور  بکری کی خون والی سری اور ناپاک مٹی سے بنے ہوئے برتن کی طرح گوشت کے متعلق یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ نجاست کےاثرات زائل ہوگئے ہیں کیونکہ بکری کی سری میں بکری خود پاک تھی اور اس کو نجاست لاحق ہوئی تھی اور نجس مٹی میں بھی مٹی اپنی اصل کے اعتبار سے پاک تھی نجاست اس کو لاحق ہوئی تھی، جبکہ خنزیر اور دیگر  حرام گوشت اپنی اصل کے اعتبار سے ہی ناپاک ہے۔ ہاں جو مصالحہ جات خنزیر یا دیگر حرام  گوشت کے ساتھ مل کر نجس ہوگئے اور پھر آگ سے جل گئے ان کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ آگ پر جلنے کی وجہ سے وہ پاک ہوجاتے ہیں۔

لہذا اس گرل کو استعمال کرنے سے پہلےگوشت کے اجزاء کو گرل سے ہٹانا ضروری ہے اور اسی بنیاد پر پچھلے فتوی میں یہ حکم لکھا گیا کہ اس گرل کو دھوکر گوشت کے اجزاء کو مکمل طور پر گرل سے ہٹا کر استعمال کرلیا جائے اور بناء بر احتیاط یہ بھی کہا گیا کہ مصالحہ جات کو بھی دھو کر صاف کرلیا جائے۔ہاں اگر گرل پر کسی قسم کے کوئی اجزاء خنزیر یا دیگرحرام گوشت کے نہ ہوں تو پھر اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔نیز اگر خنزیر یا دیگر حرام گوشت جل جل کر کوئلہ بن گیا ہو اور اس کی ماہیت بالکلیہ تبدیلی ہوگئی ہو تو پھر عام کوئلہ کی طرح  وہ بھی پاک شمار ہوگا۔

تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ خنزیر نجس العین ہے۔ دیگر حرام اشیاء کے مقابلہ میں خنزیر کی غلاظت ایک مومن کے دل میں زیادہ قابل نفرت ہونی چاہیے لہذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ دھو کر صاف کر کے استعمال کیا جائے۔

مجموعہ رسائل لقاسم بن قطلوبغا میں ہے:

"وأما دليل طهارة ما استحال إلى عين طهارة فهو: أن الشارع رتب وصف النجاسة على تلك الحقيقة. والحقيقة تنتفي بانتفاء بعض أجزاء مفهومها. فبالكل أولى.وقد روى حرب الكرماني مسألة بإسناده إلى أنس بن مالك: أنه سئل عن تنور شوي فيه خنزير. قال: يسجره مرة أخرى."

(احكام الفارة  اذا وقعت  فی الزیت و نحوہ،ص نمبر ۲۰۳، دار النوادرسوریا)

«مجموعہ رسائل لقاسم بن قطلوبغا میں ہے:

"وقال الإمام القدوري في كتابه المسمى بالتقريب: وذكر الطحاوي عن أصحابنا في النجاسة: إذا احترقت طهرت، ولم يحك خلافا.وذكر ابن رستم الخلاف قال: يطهر عند محمد (1).وعند يعقوب لا يطهر.وذكر ابن شجاع، عن أبي يوسف روايتين، وظاهر مذهب الإمام كقول محمد.....وقال في الحصر: احترق الروث فصار رمادا، أو وقعت العذرة في البئر فصارت عرور كعرور الرماد حمأة، أو الحمار في المملحة فصار بمضي الزمان ملحا، طهر عند محمد خلافا ليعقوب."

(احكام الفارة  اذا وقعت  فی الزیت و نحوہ،ص نمبر ۱۷۲، دار النوادرسوریا)

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله: ونار) كما لو أحرق موضع الدم من رأس الشاة بحر وله نظائر تأتي قريبا ولا تظن أن كل ما دخلته النار يطهر كما بلغني عن بعض الناس أنه توهم ذلك، بل المراد أن ما استحالت به النجاسة بالنار أو زال أثرها بها يطهر، ولذا قيد ذلك في المنية بقوله في مواضع."

(کتاب الطہارۃ، باب الانجاس، ج نمبر ۱، ص نمبر ۳۱۵، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها)الإحراق السرقين إذا أحرق حتى صار رمادا فعند محمد يحكم بطهارته وعليه الفتوى. هكذا في الخلاصة وكذا العذرة. هكذا في البحر الرائق.إذا أحرق رأس الشاة ملطخا بالدم وزال عنه الدم يحكم بطهارته. الطين النجس إذا جعل منه الكوز أو القدر فطبخ يكون طاهرا. هكذا في المحيط.وكذا اللبن إذا لبن بالماء النجس وأحرق. كذا في فتاوى الغرائب.إذا سعرت المرأة التنور ثم مسحته بخرقة مبتلة نجسة ثم خبزت فيه فإن كانت حرارة النار أكلت بلة الماء قبل إلصاق الخبز بالتنور لا يتنجس الخبز. كذا في المحيط.سعر التنور بالأخثاء والأرواث يكره الخبز فيه ولو رشه بالماء بطلت الكراهة. كذا في القنية."

(کتاب الطہارۃ،باب سابع،فصل اول، ج نمبر ۱، ص نمبر ۴۴، دار الفکر)

شرح منیۃ المصلی لابن امیر الحاج میں ہے:

"منها اذا تلطخ السكين بالدم او رأس الشاة ثم ادخل النار فاحترق الدم طهر الرأس و السكين 

[ش] حتي بعد ذلك لو طبخ الرأس في ماء من غير غسل جاز و لا تفسد المرقة ولو قطع بالسكين بطبخ او ما شابهه لم ينجس ذلك المقطوع قد طهر المحل في كل من هذين الملحىن باحتراق ما فيه من النجاسة الحقيقة بالنار كما كان يطهر بغسلها بالماءلما ذكرنا من وجود المساواة بين النار و الماء فيهما في المعني المقصود من استعمال الماء فيهما و هو زوال النجاسة من المحل و اضمحلالها به."

(الطہارۃ من الانجاس، ج نمبر ۱،ص نمبر ۵۰۸،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں