بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلوغت تک جس بچہ کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو، اس کے عقیقہ کا کیا حکم ہے؟


سوال

جامعہ بنوریہ ٹاؤن کے فتویٰ نمبر 144004200635میں احقر کو مسئلے کا ایک جزء سمجھ میں نہیں آیا وہ مسئلہ یہ ہے کہ :

"جو بچہ پیدائش سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا زندہ پیدا ہونے کے بعد عقیقہ سے پہلے انتقال کر گیا ہو یا کسی شخص کا بلوغت تک عقیقہ نہ ہوا ہو اور وہ انتقال کر گیا ہو یا زندہ ہو ان تمام صورتوں میں عقیقہ نہیں کیا جائے گا"

(یا زندہ ہو) کیا اس صورت میں بھی عقیقہ نہیں کیا جائے گا؟

جواب

"کسی شخص کا بلوغت تک عقیقہ نہ ہوا ہو اور وہ انتقال کر گیا ہو یا زندہ ہو ان تمام صورتوں میں عقیقہ نہیں کیا جائے گا"

سابقہ سوال و جواب میں(  یا زندہ ہو )  کا مطلب یہ ہے کہ جس  بچہ کا   بالغ ہونے تک  عقیقہ اس کے والدین اگر نہ  کرسکے ہوں، بلوغت کے بعد اس کے عقیقہ کا مطالبہ اس کے والدین سے نہیں کیا جائے گا، البتہ  اگر وہ خود کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، والدین کے ذمہ اس کا عقیقہ نہ ہوگا، تاہم اگر وہ اپنی خوشی سے کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

" ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور". ( كتاب الشرب، ٢/ ٢١٣، دار المعرفة)

المنهاج القويم شرح المقدمة الحضرمية لابن حجر الهيتمي میں ہے:

ووقتها من الولادة" بالنسبة للموسر عندها "إلى البلوغ" فإن أعسر نحو الأب في السبعة لم يؤمر بها إن أيسر بعد مدة النفاس وإلا أمر بها. "ثم" بعد البلوغ يسقط الطلب عن نحو الأب والأحسن حينئذ أنه "يعق عن نفسه" تداركًا لما فات وخبر أنه صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة باطل وإن رواه البيهقي.\" ( باب الأضحية، فصل: طفي العقيقة\"، فصل: "في العقيقة" ، ص: ٣١٠، ط: دار الكتب العلمية)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں