بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس عورت سے نکاح کروں اسے طلاق؛ کہنے كا حکم


سوال

علی  ایک مدرسہ کا طالب علم ہےجو کہ اب دورہ حدیث میں ہے، پہلے سال میں وہ   بہشتی زیور درسا ًپڑھتا تھا ،اس کو طلاق کے مسائل پڑھتے ہوۓ طلاق کے خیالات بہت زیادہ آتے تھے ،کوئی چیز اندر سے جبرکرتی تھی کہ یہ بول دے ،یا پھر یہ ہوتا تھا کہ کوئی مسئلہ پڑھتا تھا تو دل میں خیال آتا تھا کہ تو نے بھی یہ بول دیا ہے، اسی طرح ایک دن سبق میں بیٹھے ہوۓ جبکہ طلاق کہ مسائل پڑھ رہے تھے ، تو اس وقت سبق میں وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں یہ کہوں کہ جس عورت سے نکاح کروں اسے طلاق، تو ایسا کہنے سے طلاق ہو گی یا نہیں؟ تو یہ سوچتے سوچتے اچانک اس نے مذکورہ الفاظ منہ سے ادا ہو کردئے ،لیکن اس کےدل میں اس وقت ایسی کسی طلاق کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن ابھی چھ سال بعد اس کو خیال آتا ہے کہ ارادہ کا پہلے یہ گمان نہیں ہوتا تھا، ابھی سبق میں اس مسئلے پر پہنچے نہیں تھے تھوڑے دن بعد میں پہنچے، اب یہ والی طلاق پڑی یا نہیں؟ اس کا جو حیلہ علماء نے فتواجات میں لکھا ہے وہ مجھے پتا تو ہے لیکن کیا کروں گھر والے رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں جو مل نہیں رہا اب اگر کوئی مل جاتا ہے اور میں یہ بات کرتا ہوں تو رشتہ ٹوٹنے کے علاوہ یہ بھی خدشہ ہےکہ لوگ دین کے متعلق کوئی باتیں نہ کریں، کیونکہ میں ایک مولوی ہوں رہنمائی فرما دیں براۓ کرم حرام سے بچا لیں، میں پہلے بہت گنہگار ہو ں مجھے جھنم نہیں جانا۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص نکاح کی طرف اضافت کرتے ہوئے طلاق معلق کرکے یوں کہے کہ "جس عورت سے نکاح کروں،اسے طلاق" تو شرعاً قسم منعقد ہوجاتی ہے اور جیسے ہی کسی عورت سے نکاح کرے گا ،عورت پر غیر مدخول بہا ہونے کی وجہ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی اور حالف کی قسم پوری ہوجائے گی یعنی شرط پوری ہوجائے گی،دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص"علی" جس نے مذکورہ خط کشیدہ الفاظ ادا کئے ہیں، تو یہ جس عورت سے نکاح کرے گا، تو اس عورت سے نکاح ہوتے ہی ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی، اس کے بعد  اگر مذکورہ شخص اسی عورت سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو  نیا مہر مقرر کرکے نئے ایجاب وقبول کے ساتھ، شرعی گواہان کے سامنے دوبارہ تجدیدِ نکاح کرسکتا ہے ،البتہ آئندہ کے لیے مذکورہ شخص کے پاس دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

نیز  فتاوی کی کتابوں میں اس مسئلہ کے حل میں ایک صورت یہ بھی لکھی جاتی ہے کہ اگر قسم کھانے والے شخص کا نکاح  کوئی فضولی شخص کروائے اور قسم کھانے والا بالفعل اجازت  دے دے تو  وہ حانث نہیں ہوگا اور طلاق واقع نہ ہوگی، کیونکہ فضولی کے نکاح کرانے کی صورت میں شرط نہیں پائی جاتی،اس کی وضاحت یہ ہے کہ قسم کھانے والےکا یہ کہنا  "جس عورت سے نکاح کروں،اسے طلاق"  تو یہ ایسا ہے جیسے یوں کہا ہو کہ "جب بھی کسی عورت سے نکاح کروں اسے طلاق"، کیوں کہ حکم (طلاق) کو ذکر کرنا اس کے سببِ  مختص  (نکاح کروں) کو ذکر کرنا ہے، فضولی کے نکاح کرانے کی اور  فعلی  اجازت  دینے کی صورت میں قسم کھانے والے کی طرف سے  نکاح کرنا (جس پر طلاق معلق تھی ) نہیں پایا گیا۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط ‌انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما لأنها توجب عموم الأفعال."

(كتاب الطلاق،ج:1،ص:415،ط:رشيديه)

وفيه ايضاّ:

"إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو ‌كل ‌امرأة ‌أتزوجها فهي طالق."

(كتاب الطلاق،ج:1،ص:420،ط:رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(كل امرأة تدخل في نكاحي) أو تصير حلالا لي (فكذا فأجاز نكاح فضولي بالفعل لا يحنث) بخلاف كل عبد يدخل في ملكي فهو حر فأجازه بالفعل حنث اتفاقا لكثرة أسباب الملك عمادية.

(قوله لا يحنث) هذا أحد قولين قاله الفقيه أبو جعفر ونجم الدين النسفي والثاني أنه يحنث وبه قال شمس الأئمة والإمام البزدوي والسيد أبو القاسم وعليه مشى الشارح قبيل فصل المشيئة، لكن رجح المصنف في فتاواه الأول ووجهه أن دخولها في نكاحه لا يكون إلا بالتزويج. فيكون ذكر الحكم ذكر سببه المختص به فيصير في التقدير كأنه قال إن تزوجتها وبتزويج الفضولي، لا يصير متزوجا، كما في فتاوى العلامة قاسم قلت: قد يقال إن له سببين: التزوج بنفسه والتزويج بلفظ الفضولي، والثاني غير الأول بدليل أنه لا يحنث به في حلفه لا يتزوج تأمل (قوله لكثرة أسباب الملك) فإنه يكون بالبيع والإرث والهبة والوصية وغيرها بخلاف النكاح كما علمت فلا فرق بين ذكره وعدمه."

(كتاب الايمان،ج:3،ص:846،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں